حمید نظامی ہال میں ”پاکستان کا آئینی بحران“ پر معرکہ آراءمذاکرہ

Mar 31, 2010

علامہ چودھری اصغر علی کوثر
نوائے وقت، دی نیشن اور وقت نیوز چینل کے زیر اہتمام 29 مارچ 2010ءکو نوائے وقت ہاوس کے پانچویں فلور پر واقع حمید نظامی ہال میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کے مابین ”پاکستان کا موجودہ آئینی بحران“ کے موضوع پر ایک فکر انگیز مجلس مذاکرہ کا انعقاد کیا گیا، اس فکری سیاسی مباحثے میں مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی میاں مرغوب احمد، مسلم لیگ (ق) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات سینیٹر کامل علی آغا، صدر پاکستان آصف علی زرداری کے ”کوآرڈینیٹر“ نوید چودھری، سیکرٹری جنرل جمعیت اہل حدیث پاکستان حافظ ابتسام الٰہی ظہیر اور عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل احسان وائیں کو اظہار خیال کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ آج بھی ہال سامعین سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ ہر سیاسی لیڈر کے مداحین بھی اس کے ساتھ آئے تھے مگر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی تعداد زیادہ تھی چنانچہ انہوں نے اپنے مقرر کی خوب حوصلہ افزائی کی اور احسان وائیں ایڈووکیٹ نے بھی اعتراف کیا کہ مسلم لیگ (ن) اور (ق) چونکہ مقبول جماعتیں ہیں اس لئے ان کے کارکنوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اس تقریب میں اصل گفتگو صوبہ سرحد کے نام کو تبدیل کر دینے کے معاملے، جیو ڈیشیل کمشن یعنی جج حضرات کے تقرر و تعیناتی کے آئینی و قانونی پروسیجر اور میاں محمد نواز شریف کی طرف سے بار بار وقوع پذیر ہونے والے ”اباوٹ ٹرن“ کے بارے میں ہوئی ۔صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کے باب میں کامل علی آغا نے دوٹوک انداز میں نہایت ڈٹ کر بات کی اور فرمایا کہ قیام پاکستان کے شدید مخالف (ایک شخص باچا خان یا عبدالغفار خان) نے صوبہ سرحد کو پاکستان سے باہر رکھنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر معاملہ ریفرنڈم تک پہنچایا مگر صوبہ سرحد میں پاکستان کے جانثار عوام نے مکمل یکجہتی سے اس ریفرنڈم کو ناکام بنا کر اور پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کر کے عبدالغفار خان کے ”پختونستان“ کے ڈھونگ کو ہمیشہ کے لئے سپردخاکِ پاکستان کر دیا۔ وہ شاید اسی ناکامی ہی کا اثر تھا کہ پاکستان کی خاک نے مردہ عبدالغفار خان کو اپنے دامن میں پناہ دینا بھی پسند نہ کیا اور ان کو افغانستان کے شہر جلال آباد میں دفن کیا گیا۔ اس موضوع پر ”پختونستان“ کے شوشے پر ہمیشہ فدا ہوتے رہنے والی نیشنل عوامی پارٹی کے احسان وائیں نے بھی آج اپنا پنترا بدلا ہوا تھا چنانچہ انہوں نے کہا کہ 17 ویں ترمیم کو ختم کر دینے کے باب میں تمام معاملات طے ہو جانے کے بعد میاں محمد نوازشریف نے کہا کہ نہ تو مجھے صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے اس کا نام پختونخواہ رکھنا منظور ہے اور نہ میں اس معاملے کا ساتھ دے سکتا ہوں چنانچہ میں (احسان وائیں) کہوں گا کہ نیشنل عوامی پارٹی تو چاہتی ہے کہ سرحد کا نام ”افغانیہ“ رکھ دیا جائے گویا وہ اپنے اس دیرینہ موقف سے قطعاً ہٹ جانے کا اعلان کرنے لگے جو ”پختونخواہ“ نام رکھنے کے باب میں انہوں نے اور ان کی پارٹی نے تجویز کیا ہوا تھا۔ احسان وائیں نے کہا کہ ہم تو پاکستان کے اتحاد و یکجہتی کے حامی ہیں۔ اگر صوبہ سرحد کے عوام یا پاکستان کے عوام سرحد کا نام ”پختونخواہ“ اور اس کے ساتھ ”اباسین“ نہیں رکھنا چاہتے تو نہ سہی مگر اس مجلس میں حافظ ابتسام الٰہی ظہیر نے قطعاً مختلف موقف اختیار کیا اور کہا کہ اگر سندھیوں کے صوبہ کا نام سندھ، پنجابیوں کے صوبہ کا نام پنجاب اور بلوچوں کی زیادہ تعداد کے باعث ایک صوبے کا نام بلوچستان رکھا جا سکتا تھا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ پختونوں کی اکثریت والے صوبے کا نام ”پختونخواہ“ نہ رکھا جائے۔میاں مرغوب احمد نے بھی واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ پاکستان کی تاریخ میں 1973ءکا آئین ایک نہایت مقدس دستاویز ہے اس کو منظور کرنے کے لئے اس زمانے کی تمام سیاسی جماعتوں اور عوام نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ 18 فروری 2008ء کے عام انتخابات کے فوراً بعد 17 ویں ترمیم ختم کر دی جانا چاہیے تھی اور موجودہ صدر آصف علی زرداری اور دیگر شخصیات سے میاں نوازشریف کے مذاکرات اس معاملے میں ہوتے رہے لیکن اس بارے میں اعلانات و مذاکرات کے باوجود اتنی تاخیر کی گئی کہ اب تک وہ ترمیم موجود ہے، ہم تو چاہتے ہیں کہ پاکستان میں آئینی اصلاحات کا پھل عوام تک بھی پہنچے مگر 17 ویں ترمیم کے خاتمے میں ”اڑیکا“ ڈالنے کا سارا ڈسکریڈٹ بابر اعوان کو جاتا ہے جنہوں نے خود ہی اعلان کر دیا کہ 18 ویں ترمیم کا مسودہ فلاں تاریخ کو اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے نوید چودھری نے آج کے موضوع کو نہایت اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کا حسن وہی ہے کہ ہر کوئی اپنے خیالات کا اظہار کر سکے اور سامعین تحمل اور بردباری سے اسے سماعت کریں۔ واقعہ تو وہ ہے کہ آج کل پاکستان میں سیاستدانوں کی جگ ہنسائی کی جا رہی ہے میں میاں نوازشریف اور شہبازشریف کی سوچ کا بھی احترام کرتا ہوں مگر کسی کے بارے میں توہین آمیز کلمات ادا نہیں کرنا چاہئیں اور وہ کام وہی لوگ کر رہے ہیں جو پاکستان میں جمہوریت کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں اور میں ان کو غیر منتخب قوتیں تصور کرتا ہوں۔ پاکستان کے اندر منتخب قوتیں تو جمہوریت کو کبھی غیر مستحکم نہیں کرتی ہیں۔ میں کہوں گا کہ میاں نوازشریف نے 24 مارچ 2010ءکو جو پریس کانفرنس کی اس میں 27 رکنی آئینی کمیٹی کی بھی توہین ہوئی مگر ابھی کچھ بھی نہیں بگڑا اور اگر ہم متحد ہو کر اپنی جمہوری منزل کی طرف گامزن رہیں تو عملاً ان مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں جو ابھی ہمارے تصورات کا اثاثہ ہیں ان تمام معاملات کو نابود کر دیا جانا چاہیے جو پاکستان کے لئے نقصان دہ ہوں، اسی طرح صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کا معاملہ بھی باہمی افہام وتفہیم سے طے کرنے کی کوشش کرنا ہو گی اصل مسائل پاکستان کے عوام کے مسائل ہیں اور پاکستان کو اس دلدل سے نکالنا ہو گا جس میں وہ پھنسا ہوا ہے۔ آج اس تقریب میں احسان وائیں نے آج کے مذاکرے کو نہایت اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ حمید نظامی ہال میں نوائے وقت، دی نیشن اور وقت نیوز چینل کے زیر اہتمام پاکستان کی نظریاتی اور جمہوری اقدار کے تحفظ کے لئے اور پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی سلامتی و بقاءکے باب میں نہایت اہم اور قابل ستائش مذاکروں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
مزیدخبریں