کیسی کیسی سازشیں ہوئی ہیں ہمیں بدنام کرنے کیلئے، ہم پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کیلئے، ہمارے شہریوں پر فوجی چڑھائی کرانے اور ہماری دھرتی کا سینہ ڈرون حملوں سے چھلنی کرنے کیلئے اور دینِ اسلام کو نعوذ باللہ وحشت و بربریت کا دین ثابت کرانے کیلئے۔سوات، مالاکنڈ ڈویژن میں ایک لڑکی کو سرعام کوڑے مارنے کے جس واقعہ کو آپریشن راہ راست (جسے پہلے آپریشن راہ حق کا نام دیا گیاتھا) کا جواز بنایاگیا۔ اب دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ سب جھوٹ، فریب اور ڈرامہ تھا اور اس دھرتی پر بیٹھ کر ملکی اور قومی مفادات کے خلاف کام کرنے والی اسلام آباد کی ایک مادر پدر آزاد این جی او نے پاکستان کو بدنام کرنے کے دشمنان اسلام کے ایجنڈے کے تحت وہ ڈرامہ رچا کر اس کی پوری دنیا میں تشہیر کی تھی۔
میں نے توانہی سطور میں اسی وقت یہ عرض کیا تھا کہ جس انداز میں ملکی اور عالمی سطح پر اس نام نہاد واقعہ کی تشہیر کی جا رہی ہے یہ سب فرضی، من گھڑت اور ہمارے دشمنوں کی سازش ہے جس میں ہمارا میڈیا بھی ٹریپ ہورہا ہے۔ آج اس واقعہ کے ڈیڑھ سال بعد سازشی عناصر خود ہی بول اٹھے ہیں۔ ویڈیو فلم تیار کرنے والے اسلام آباد کی متعلقہ این جی او کے نوجوان اہلکار نے ہی گواہی دے دی ہے کہ اس کام کیلئے این جی او نے اسے پانچ لاکھ روپے فراہم کئے تھے جبکہ اس ڈرامے میں کوڑے کھانے والی مبینہ مظلوم لڑکی کو اس این جی او نے ایک لاکھ روپے اور کوڑے مارنے کا ڈرامہ کرنے والے دو بچوں کو پچاس پچاس ہزار روپے دیئے تھے۔ یقینا لڑکی بھی اس این جی او کی ہی ملازم ہوگی جس نے چیخ و پکار کا خوب ڈرامہ رچایا جبکہ کوڑے میراثیوںکے زیراستعمال وہ فرضی دُرّے ہوں گے جنہیں وہ شادی بیاہ کی تقاریب میں اپنے ہاتھوں پر مار کر حاضرین کیلئے طرب و مزاح کا اہتمام کرتے ہیں۔
پندرہ کوڑے کھانے کے بعد جس طرح وہ لڑکی اٹھ کر کپڑے جھاڑتی بغیر کسی سہارے کے روانہ ہوتی دکھائی گئی اس کا یہی عمل جعلسازی کی گواہی دے رہا تھا۔ سب سے پہلے یہ فلم بی بی سی پر دکھائی گئی جس سے ڈرامہ رچانے والے نیٹ ورک کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ پہلے اس کی بیرون ملک تشہیر ہوئی اور اس کی بنیاد پر مغربی میڈیا نے دینِ اسلام کو وحشت و بربریت کا دین ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا پھر یہ ڈرامہ ہمارے اپنے میڈیا پر پھیلا دیا گیا اور اس نے بھی دینِ اسلام کے بارے میں دشمنانِ اسلام کے زہریلے پراپیگنڈے کو تقویت پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ غیر ملکی ڈونر ایجنسیوں کے فنڈز پر پلنے والی این جی اوز کے تو گویا وارے نیارے ہوگئے۔ اس ویڈیو فلم کو ہاٹ کیک کی طرح استعمال کیا۔ ایسے ایسے جوشیلے اور ہذیانی کیفیت والے زہریلے تبصرے ہوئے کہ خدا کی پناہ۔ کسی نے کھوج لگانے کی کوشش نہ کی، بس بھیڑ چال میں چلتے گئے اور پھر اس فرضی واقعہ کی آڑ میں آپریشن ”راہ راست“ کا جواز نکل آیا۔ ایک جانب آپریشن جاری اور دوسری جانب امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری۔اس دھرتی کو انسانی خون سے رنگین کردیا گیا، ہنستے بستے گھرانوں کو اجاڑ دیا گیا، بازاروں کے بازار، چلتے کاروبار تباہ کردیئے گئے۔ وطنِ عزیز کے کم و بیش 30 لاکھ باشندے اپنے ہی دیس میں مہاجر بنا دیئے گئے۔ انسانی ظلم کی وہ داستانیں رقم ہوئیں کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی اس ظلم کا شکار بے بس انسانوں کی کراہیں سنتی اور اس کے ردعمل میں اپنے ذہنوں میں نفرتیں پالتی رہیں گی۔ خودکش حملوں کی صورت میں اس انسانی ظلم کا ردعمل تو ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اس ایک فرضی واقعہ کی آڑ میں سوات مالاکنڈ ڈویژن میں کلمہ گو مسلمان بھائیوں، بہنوں، بچوں کے قتل عام کے آغاز سے اب جنوبی وزیرستان آپریشن تک ہم اپنا کتنا جانی اور مالی نقصان کر بیٹھے ہیں۔ اعداد و شمار پر مبنی رپورٹیں سرکاری ریکارڈ میں موجود ہیں جنہیں گزشتہ ہفتے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی کشکول میں ڈال کر امریکہ لے گئے تھے۔ ان رپورٹوں کے مطابق کم و بیش چالیس ہزار انسانی جانیں اس آپریشن، ڈرون حملوں اور ان کے ردعمل میں ہونے والے خودکش حملوں اور اسی کے تسلسل میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں ضائع ہوئی ہیں۔ زخمی ہونے اور مستقل اپاہیج ہونے والے اس وطنِ عزیز کے مظلوم بے بس باشندوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ شہید اور زخمی ہونے والے ان افراد کے خاندانوں کو نہ ختم ہونے والے روگ لگ چکے ہیں اور مالی نقصان۔ خود وزیر خارجہ شاہ محمود اپنی ہم منصب ہلیری کے سرسے سر ٹکراتے، ہلارا کھاتے ہوئے بیان دے آئے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمہ کی اس جنگ میں ہماری معیشت کو چالیس ارب ڈالر کا ٹیکہ لگا ہے۔
پانچ سات لاکھ روپے کے عوض رچائے گئے اس ویڈیو فلم کے ڈرامہ نے ہمیں کتنا جانی اور مالی نقصان پہنچایا ہے اور اقوام عالم میں بطور مسلمان ہمارا تشخص کتنا خراب کیا ہے۔ آپریشن راہ نجات میں اب تک مصروف ہمارے حکومتی اور عسکری لیڈران کو کیا اب اس سے سبق حاصل نہیں کرلینا چاہئے اور اسلام دشمنوں کے پراپیگنڈے کو بڑھانے چڑھانے پھیلانے کے کاروبار میں مصروف ہمارے میڈیا کے مخصوص حلقوں کو اپنے کئے پر نادم ہونا اور قوم سے معافی نہیں مانگ لینا چاہئے اور پھر جو این جی اوز دشمنان اسلام سے کروڑوں روپے کے فنڈز لے کر پاکستان اور اسلام کوبدنام کرنے کی گھناﺅنی سازشوں کو پروان چڑھا رہی ہیں، کیا ان کی سرکوبی کرنے کا اب بھی وقت نہیں آیا۔ ابھی تو ”ہیر دے ماما“ لنگڑی ذہنیت والے اوباما کابل میں بیٹھ کر اپنے فدوی ہمارے حکمرانوں سے ”ڈومور“ کا تقاضہ بھی کئے جا رہے ہیں۔ ہماری سرزمین کے بعد اب افغانستان میں بھی ہماری افواج کی چڑھائی کرانا چاہتے ہیں اور ہمارے لیڈران ہیں کہ اب بھی ان کے دامِ فریب میں پھنستے، دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ وہ ڈرامے کرتے ہیں، یہ حقیقت کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔ کلمہ گو نشانے پر ہیں اور اپنے ہی ان پر تیراندازی کا شوق پورا کر رہے ہیں۔ جناب! ذرا سوچئے تو سہی، دشمن ہم سے کیا کام لے رہا ہے اور ہمیں کدھر دھکیل رہا ہے ۔وقت بہت تیزی سے ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ خود کو سنبھال لیں ورنہ کوئی دوسرا بھی آپ کو نہیں سنبھال پائے گا....
اپنی یہ حالت کہ اپنا بھی تحفظ، معجزہ
اور اوپر تاک میں اغیار، الٰہی خیر ہو
میں نے توانہی سطور میں اسی وقت یہ عرض کیا تھا کہ جس انداز میں ملکی اور عالمی سطح پر اس نام نہاد واقعہ کی تشہیر کی جا رہی ہے یہ سب فرضی، من گھڑت اور ہمارے دشمنوں کی سازش ہے جس میں ہمارا میڈیا بھی ٹریپ ہورہا ہے۔ آج اس واقعہ کے ڈیڑھ سال بعد سازشی عناصر خود ہی بول اٹھے ہیں۔ ویڈیو فلم تیار کرنے والے اسلام آباد کی متعلقہ این جی او کے نوجوان اہلکار نے ہی گواہی دے دی ہے کہ اس کام کیلئے این جی او نے اسے پانچ لاکھ روپے فراہم کئے تھے جبکہ اس ڈرامے میں کوڑے کھانے والی مبینہ مظلوم لڑکی کو اس این جی او نے ایک لاکھ روپے اور کوڑے مارنے کا ڈرامہ کرنے والے دو بچوں کو پچاس پچاس ہزار روپے دیئے تھے۔ یقینا لڑکی بھی اس این جی او کی ہی ملازم ہوگی جس نے چیخ و پکار کا خوب ڈرامہ رچایا جبکہ کوڑے میراثیوںکے زیراستعمال وہ فرضی دُرّے ہوں گے جنہیں وہ شادی بیاہ کی تقاریب میں اپنے ہاتھوں پر مار کر حاضرین کیلئے طرب و مزاح کا اہتمام کرتے ہیں۔
پندرہ کوڑے کھانے کے بعد جس طرح وہ لڑکی اٹھ کر کپڑے جھاڑتی بغیر کسی سہارے کے روانہ ہوتی دکھائی گئی اس کا یہی عمل جعلسازی کی گواہی دے رہا تھا۔ سب سے پہلے یہ فلم بی بی سی پر دکھائی گئی جس سے ڈرامہ رچانے والے نیٹ ورک کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ پہلے اس کی بیرون ملک تشہیر ہوئی اور اس کی بنیاد پر مغربی میڈیا نے دینِ اسلام کو وحشت و بربریت کا دین ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا پھر یہ ڈرامہ ہمارے اپنے میڈیا پر پھیلا دیا گیا اور اس نے بھی دینِ اسلام کے بارے میں دشمنانِ اسلام کے زہریلے پراپیگنڈے کو تقویت پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ غیر ملکی ڈونر ایجنسیوں کے فنڈز پر پلنے والی این جی اوز کے تو گویا وارے نیارے ہوگئے۔ اس ویڈیو فلم کو ہاٹ کیک کی طرح استعمال کیا۔ ایسے ایسے جوشیلے اور ہذیانی کیفیت والے زہریلے تبصرے ہوئے کہ خدا کی پناہ۔ کسی نے کھوج لگانے کی کوشش نہ کی، بس بھیڑ چال میں چلتے گئے اور پھر اس فرضی واقعہ کی آڑ میں آپریشن ”راہ راست“ کا جواز نکل آیا۔ ایک جانب آپریشن جاری اور دوسری جانب امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری۔اس دھرتی کو انسانی خون سے رنگین کردیا گیا، ہنستے بستے گھرانوں کو اجاڑ دیا گیا، بازاروں کے بازار، چلتے کاروبار تباہ کردیئے گئے۔ وطنِ عزیز کے کم و بیش 30 لاکھ باشندے اپنے ہی دیس میں مہاجر بنا دیئے گئے۔ انسانی ظلم کی وہ داستانیں رقم ہوئیں کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی اس ظلم کا شکار بے بس انسانوں کی کراہیں سنتی اور اس کے ردعمل میں اپنے ذہنوں میں نفرتیں پالتی رہیں گی۔ خودکش حملوں کی صورت میں اس انسانی ظلم کا ردعمل تو ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اس ایک فرضی واقعہ کی آڑ میں سوات مالاکنڈ ڈویژن میں کلمہ گو مسلمان بھائیوں، بہنوں، بچوں کے قتل عام کے آغاز سے اب جنوبی وزیرستان آپریشن تک ہم اپنا کتنا جانی اور مالی نقصان کر بیٹھے ہیں۔ اعداد و شمار پر مبنی رپورٹیں سرکاری ریکارڈ میں موجود ہیں جنہیں گزشتہ ہفتے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی کشکول میں ڈال کر امریکہ لے گئے تھے۔ ان رپورٹوں کے مطابق کم و بیش چالیس ہزار انسانی جانیں اس آپریشن، ڈرون حملوں اور ان کے ردعمل میں ہونے والے خودکش حملوں اور اسی کے تسلسل میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں ضائع ہوئی ہیں۔ زخمی ہونے اور مستقل اپاہیج ہونے والے اس وطنِ عزیز کے مظلوم بے بس باشندوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ شہید اور زخمی ہونے والے ان افراد کے خاندانوں کو نہ ختم ہونے والے روگ لگ چکے ہیں اور مالی نقصان۔ خود وزیر خارجہ شاہ محمود اپنی ہم منصب ہلیری کے سرسے سر ٹکراتے، ہلارا کھاتے ہوئے بیان دے آئے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمہ کی اس جنگ میں ہماری معیشت کو چالیس ارب ڈالر کا ٹیکہ لگا ہے۔
پانچ سات لاکھ روپے کے عوض رچائے گئے اس ویڈیو فلم کے ڈرامہ نے ہمیں کتنا جانی اور مالی نقصان پہنچایا ہے اور اقوام عالم میں بطور مسلمان ہمارا تشخص کتنا خراب کیا ہے۔ آپریشن راہ نجات میں اب تک مصروف ہمارے حکومتی اور عسکری لیڈران کو کیا اب اس سے سبق حاصل نہیں کرلینا چاہئے اور اسلام دشمنوں کے پراپیگنڈے کو بڑھانے چڑھانے پھیلانے کے کاروبار میں مصروف ہمارے میڈیا کے مخصوص حلقوں کو اپنے کئے پر نادم ہونا اور قوم سے معافی نہیں مانگ لینا چاہئے اور پھر جو این جی اوز دشمنان اسلام سے کروڑوں روپے کے فنڈز لے کر پاکستان اور اسلام کوبدنام کرنے کی گھناﺅنی سازشوں کو پروان چڑھا رہی ہیں، کیا ان کی سرکوبی کرنے کا اب بھی وقت نہیں آیا۔ ابھی تو ”ہیر دے ماما“ لنگڑی ذہنیت والے اوباما کابل میں بیٹھ کر اپنے فدوی ہمارے حکمرانوں سے ”ڈومور“ کا تقاضہ بھی کئے جا رہے ہیں۔ ہماری سرزمین کے بعد اب افغانستان میں بھی ہماری افواج کی چڑھائی کرانا چاہتے ہیں اور ہمارے لیڈران ہیں کہ اب بھی ان کے دامِ فریب میں پھنستے، دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ وہ ڈرامے کرتے ہیں، یہ حقیقت کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔ کلمہ گو نشانے پر ہیں اور اپنے ہی ان پر تیراندازی کا شوق پورا کر رہے ہیں۔ جناب! ذرا سوچئے تو سہی، دشمن ہم سے کیا کام لے رہا ہے اور ہمیں کدھر دھکیل رہا ہے ۔وقت بہت تیزی سے ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ خود کو سنبھال لیں ورنہ کوئی دوسرا بھی آپ کو نہیں سنبھال پائے گا....
اپنی یہ حالت کہ اپنا بھی تحفظ، معجزہ
اور اوپر تاک میں اغیار، الٰہی خیر ہو