سید شوکت علی شاہ ملک کے ممتاز دانشور اور منفرد سفرنامہ نگار ہیں ۔آج سے قریباً چالیس سال قبل انہوں نے بلوچستان پر اپنی پہلی کتاب ”اجنبی اپنے دیس“ میں لکھی اور اہل وطن کو چونکا دیا۔ ایک بیورو کریٹ کا خود احتسابی کی منزل سے گزرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ انہوں نے کھل کر انتظامیہ پر تنقید کی اور پہلی مرتبہ اہل وطن کو بلوچستان کے سلگتے ہوئے بے پایاں مسائل سے روشناس کرایا۔ اس کے بعد تخلیقی سوتے کبھی خشک نہ ہوئے۔ شاہ صاحب نے نو کتابیں لکھی ہیں۔ گو بنیادی طور پر سفرنامہ نگار ہیں لیکن ادب کی کوئی ایسی صنف نہیں ہے جس پر ان کا ماہر قلم نہ اٹھا ہو۔ فکشن‘ تحقیق‘ طنز و مزاح کے علاوہ انہوں نے شیخ زید بن سلطان والی ابوظہبی کی بائیو گرافی بھی لکھی۔ انکی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت پاکستان نے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس دیا ۔انکی اکثر کتابیں نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں بالاقساط چھپ چکی ہیں۔ ”شاہ داستان“ انکی سوانعمری ہے۔ ان کا تعلق صوبائی سول سروس سے ہے۔ شاہ صاحب پنجاب کے مختلف اضلاع میں دس سال تک ڈپٹی کمشنر رہے جو بذات خود ایک ریکارڈ ہے۔ کمشنری کے علاوہ ممبر بورڈ آف ریونیو‘ ممبر پبلک سروس کمشن چیئرمین لاہور آرٹس کونسل اور سیکرٹری انفارمیشن کے عہدے پر فائز رہے۔ آج کل نوائے وقت میں حرمت حرف کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں۔ -3 ایک بہترین ادبی کاوش ہونے کے علاوہ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ شاہ صاحب گفتنی اور ناگفتنی سب باتوں کو احاطہ تحریر میں لے آتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے حکمرانوں کے چہرے سے نقاب اٹھا کر عوام کو انکی اصل شکل اور رنگ روپ دکھایا ہے۔ حق اور سچ کی تلاش میں ان کے بڑھتے ہوئے قدم نہ کہیں رکے ہیں اور نہ ہی سر جھکا ہے۔ بتقاضائے بشریت ان سے بھی جو غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں انہیں بھی بلاکم و کاست لکھ دیا ہے۔ اس طرح یہ اس منافقت کا شکار نہیں ہوئے جو ہمارے ادب‘ ثقافت اور معاشرت کا سکہ رائج الوقت ہے۔ ہمارے بعض سرکاری افسروں نے اپنی کتاب میں خود کو ولی اللہ‘ قطب اور ابدال ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ شاہ صاحب نہ تو پندار مناصب میں گرفتار رہے ہیں اور نہ اپنے آپکو انسانی سطح سے اوپر اٹھانے کی کوشش کی ہے.... یہی وجہ ہے کہ زیرنظر کتاب نہ صرف سوانعمریوں میں گراں قدر اضافہ ہے بلکہ ہماری سیاسی‘ تہذیبی اور ادبی دنیا کے لئے یہ ایک ایسی دستاویز ہے جسے نظرانداز کرکے آگے بڑھ جانا ان اصحاب کےلئے ناممکن ہو گا جو ہماری سیاست اور تہذیب میں صداقت اور دیانت کا بول بالا دیکھنا چاہتے ہیں۔ (ادارہ)
”شاہ داستان“
Mar 31, 2013