تحریک انصاف کا جنون

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان 23مارچ کو مینار پاکستان پر ایک بڑا جلسہ منعقد کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ آندھی ، تیز بارش اور شدید موسم کے باوجود لاکھوں فراد جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی عمران خان کا خطاب سننے کیلئے جلسہ گاہ کے اندر ہی نہیں بلکہ جلسہ گاہ کے باہر اور آس پاس کی سڑکوں پر بھی موجود تھے۔ تحریک انصاف کو جس کے بارے میں پچھلے چند ماہ سے سمجھا جارہا تھا کہ وہ سیاسی میدان میں اپنے حریفوں بالخصوص مسلم لیگ ن کے مقابلے میں پیچھے چلی گئی ہے اسے اپنی واپسی کیلئے کسی ایسے ہی جاندار ، بھرپور اور پرجوش مظاہرے کی ضرورت تھی۔ بلاشبہ 23مارچ کے مینار پاکستان کے جلسے نے تحریک انصاف کو نیا ولولہ اور جذبہ دیا ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کیا تحریک انصاف جوش و جنوں کے اپنے اس نئے روپ کو قائم رکھ سکے گی۔ یا ایک بار پھر اسکی حالت ویسی ہی ہوجائیگی جو 30اکتوبر2011کو اسی مینار پاکستان پر منعقد ہونیوالے تحریک انصاف کے عظیم الشان جلسے کے انعقاد کے چند ماہ بعد ہونا شروع ہوگئی تھی۔
30اکتوبر2011کو بلا شبہ مینار پاکستان پر تحریک انصاف کا ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا تھا جس کے بعد عمران خان کا یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کے انکا سونامی سب کو بہا کر لے جائیگا۔ اور پھر واقعی ایسا ہونا شروع بھی ہوگیا تھا۔ کہ لوگوں نے جوق در جوق تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنا شروع کردی۔ عمران خان پر یہ اعتراضات بھی سامنے آنا شروع ہوگئے کہ عمران نعرہ تو تبدیلی کا لگاتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے آس پاس پرانے ، گھسے پٹے، بدعنوان اور مفاد پرست لوگوں کو جمع کرنا شروع کردیا ہے۔ تاہم عمران خان اسکی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھتے رہے اور انہوں نے کراچی ، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ اور دیگر جگہوںپر کامیاب جلسے منعقد کرڈالے لیکن اسکے ساتھ ہی عمران خان کا واپسی کا سفر بھی شروع ہوگیا عمران خان کے سیاسی مخالفین جو پہلے عمران خان کی مخالفت کو بوجوہ نظر انداز کر رہے تھے خم ٹھونک کر میدان میں آگئے۔ مسلم لیگ ن جسکی اعلیٰ قیادت بالخصوص میاں نواز شریف کو عمران خان بطور خاص منفی تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے تھے نے اپنی صفوں کو منظم کیا عوامی رابطوں کو تیز تر کیا اور مسلم لیگ ن کے میڈیا سل نے تحریک انصاف خاص طور پر عمران خان کی شخصیت کے منفی پہلووں کو بھرپور انداز سے اجاگر کیا۔ عام لوگ بھی عمران خان کی اپنی مخالفین کے بارے میں استعمال کی جانے والی زبان کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے تھے۔ پھر تحریک انصاف کے اندر بھی توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا تحریک انصاف کے نظریاتی کارکنوں ، پرانے عہدیداروں اور نئے آنیوالوں کے درمیان ایک طرح کی کشمکش ، کھینچا تانی اور باہمی مخاصمت کی فضا بن گئی۔ بعض پرانے عہدیداروں اور نئے آنے والوں کو عمران خان کی ذات سے بھی شکایات پیدا ہوئیں اس طرح نہ صرف تحریک انصاف میں نئے شامل ہونے والوں کی دوڑ رک گئی بلکہ کئی اہم لوگوں نے تحریک انصاف کو خیر باد بھی کہنا شروع کردیا۔ یہ سلسلہ تواتر سے جاری رہا اور تحریک انصاف کے بارے میں یہ تاثر ابھرا کہ اسکی مقبولیت میں کمی آرہی ہے۔
تحریک انصاف کا اتار چڑھاﺅ اپنی جگہ عمران خان کوبہر کیف یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی کے تاثر کی پرواہ نہ کی اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس سے انکی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوسکتی ہے تحریک انصاف میں انٹرا پارٹی الیکشن کو سب باتوں پرفوقیت دی۔ پچھلے ڈیڑھ دو ماہ کے دوران ایسا لگ رہا تھا کہ تحریک انصاف میں نچلی سطح سے لے کر اوپر کی سطح تک الیکشن نہیں ہورہے بلکہ تحریک انصاف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی ہے۔ تحریک انصاف کے نئے اور پرانے کارکنوں اور چھوٹے بڑے عہدیداروں میں ہر جگہ جھگڑے ، تنازعے، مخالفانہ بیان بازی اور الزام تراشی کا سلسلہ زور وشورسے چلتا رہا ۔لیکن عمران خان نے قطعاً اسکی پرواہ نہ کی اور 23مارچ کے مینار پاکستان پر جلسہ کے انعقاد سے قبل تحریک انصاف میں نچلی سطح سے لر کر چیئرمین کی سطح تک الیکشن کے عمل کو مکمل کروا کے چھوڑا ۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ جہاں عوامی حلقوں اور میڈیا نے تحریک انصاف میں انٹرا پارٹی الیکشن کے اقدام کی زبردست تعریف و تحسین کی وہاں خود عمران خان کو بھی بڑا اعتماد ملا انہوں نے اسی ہزار پارٹی عہدیداروں کیلئے مینار پاکستان کے جلسے میں حلف اٹھانے کا اعلان کیا۔ اس سے مینار پاکستان کے جلسے میں نہ صرف بڑی حاضری یقینی بنی بلکہ تحریک انصاف کے کارکنوں اور عہدیداروں میں نیا ولولہ اور جوش وجنوں بھی پیدا ہوا۔
عمران خان واقعی اس وقت مقبولیت کی بلندیوں پر ہیں لیکن اسکے ساتھ انہیں کئی چیلنجز کا بھی سامنا ہے ۔ سب سے بڑا چیلنج انتخابی ٹکٹوں کا اجرا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ گزشتہ ایک آدھ سال کے دوران بہت سارے لوگ پارٹی ٹکٹوں کی لالچ میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں۔ اب اگر انہیں پارٹی ٹکٹ نہیں ملتے تو کیا انکی پارٹی کے ساتھ وابستگی اسی طرح قائم رہے گی یا اس میں فرق آجائیگا۔ پھر تحریک انصاف کے پرانے عہدیدار اور نظریاتی کارکن بھی پارٹی ٹکٹوں پر اپنا حق فائق سمجھتے ہیں اور اگر وہ ٹکٹوں سے محروم رہتے ہیں تو انکا رد عمل کس حد تک مثبت یا منفی ہوگا۔ یقینا یہ ایک مشکل صورتحال ہے جسکا عمران خان کو سامنا کرنے پڑیگا۔ عمران خان کی مخالف بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کو اس طرح کی مشکل صورتحال سے کم ہی دوچار ہونا پڑیگا اس لئے کہ ان جماعتوں کے کارکنوں اور عہدیداروں میں پہلے سے بڑی حد تک یہ آگاہی موجود ہے کہ کن لوگوں کو پارٹی ٹکٹ ملیں گے۔
عمران خان یقینا چیلنج قبول کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں ۔ انہیں نوجوان نسل کی پرجوش حمایت بھی حاصل ہے لیکن کیا عمران خان کی ذاتی صلاحتیں اور نوجوان نسل کی حمایت عام انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی کامیابی کی ضمانت بن سکتی ہیں یہ بڑا اہم سوال ہے۔ انتخابات میں کامیابی پر کئی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ووٹ دینے کیلئے لوگ اپنے گھروں سے نکلیں اور اپنے پسندیدہ امیدوار کے حق میں اتنے ووٹ ڈالیں کہ اسے اپنے مد مقابل امیدواروں پر برتری حاصل ہوجائے۔ کیا تحریک انصاف کو اتنی مقبولیت حاصل ہوچکی ہے کہ وہ اپنی مد مقابل دوبڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں زیادہ ووٹ لے سکتی ہے 2008کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کو وسطی اور شمالی پنجاب میں شہری حلقوں میں بطور خاص بڑی کامیابی ملی تھی۔ اور اوسطا ً پول ہونیوالے ووٹوں کے نصف سے زیادہ ووٹ مسلم لیگ ن کے امیدواروں نے حاصل کیے تھے۔ پیپلز پارٹی نے اندازاً پچیس تیس فیصد ووٹ لیے۔ کیا تحریک انصاف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی یا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے مشترکہ امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ ووٹ لے سکتی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ ایسا آسانی کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ پھرپولنگ کے دن اپنے حامیوں کے ووٹ ڈلوانے کیلئے جس طرح کی ماہرانہ منصوبہ بندی اور اس کیلئے جس طرح کے ماہر ، تجربہ کار اور گھاگ کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے تحریک انصاف اپنے نوجوان اور پرجوش حامیوں کے جوش و جنوں کے باوجود اس طرح کی عملی اور موثر حمایت اور منصوبہ بندی سے محروم نظر آتی ہے۔ آگے کیا ہوتا ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صورتحال واضح ہوتی جائےگی۔

ای پیپر دی نیشن