قیام پاکستان کے 65 سال گزرنے کے باوجود ہمارے ہا ں مستحکم جمہوری نظام قائم نہیں ہوسکا۔غیر مستحکم سیاسی نظام کی وجہ سے ہمارا ملک عرصہ دراز سے ایک گرداب میں پھنسا ہوا ہے جہاں پاکستان میں حقیقی جمہوریت کو پھلنے پھولنے سے روکنے میں فوجی آمریت اور نیم آمرانہ جمہوریت نے بڑا اہم کردارادا کیا۔ ہمارے ملک میں حقیقی سیاسی کلچر کے فقدان نے ہمارے ہاں ارفع جمہوریت کے اُس تصور کو پروان ہی نہیں چڑھنے دیا ہے جسکا مقصد لوگوں کو با اختیار کرنا اور انکی حقیقی فلاح و بہبود سے متصف ہے۔ترقی یافتہ ملکوں میں سیاسی جماعتیںبرسر اقتدار آکر ایسی پالیسیاں وضع کرتی ہیں جس سے عوام کی اکثریت کو آبرو مندانہ طورپر صحت،تعلیم اور روزگار کی سہولتیں میسر آتی ہیں۔ریاست انکے جان و مال اور عزت و آبرو کیلئے ہر دم چوکس رہتی ہے سماجی اور معاشی امتیازات کے خاتمے سے ہر امیر اور غریب کو یکساں حیثیت سے انصاف کی فراہمی یقینی امر بن جاتی ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے سیاسی کلچر میں ایسے خود کار نقائص پائے جاتے ہیں کہ یہاں کبھی بھی صحیح معنوں کی حامل جمہوریت کو اپنے اعلیٰ ثمرات کے ساتھ پھلنے پھولنے کا موقع نہیںمل سکا‘ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی بنیاد میں موروثیت، نسل در نسل خاندانی تسلط، شخصیت پرستی،نسلی، علاقائی گروہی تعصبات کے علاوہ فرقہ پرستی جیسے گہرے عوامل سیاسی جماعتوں کو ادارہ جاتی حیثیت میں تبدیل ہی نہیں ہونے دیتے جو کبھی حقیقی سیاسی کلچر کے فروغ میں مددگار ثابت ہوں۔ لہٰذا جہا ں منافع حاصل کیاجائے گا وہاں سیاسی، معاشی،سماجی اور جذباتی استحصال کا ہتھیار لازماً بروئے کار آئے گا لہٰذا کس طرح ہم یقین کرسکے ہیں کہ جب پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئے گی تو روٹی کپڑا اور مکان ملے گا۔کیا پیپلز پارٹی کی بھٹو سے لیکر آصف زرداری تک چار دفعہ حکومت میں آنے سے روٹی، کپڑا، مکان لوگوں کو مل گیا ہے۔کیا دو دفعہ مرکز اور ایک دفعہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت سے لوگوں کو روزگار،صحت،تعلیم،انصاف کا حصول سستے داموں میسر آگیا ہے۔کیا سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی مشرف دور میں حکومت سے خلفائے راشدین کے عہدہ کا احیاءہوا تھا کیا تحریک انصاف کے سربراہ جو پاکستان کو امریکی غلامی سے نجات دلانے کا عزم لئے ہوئے ہیں‘ کرپشن کو ختم کرنے کا نعرہ بلند کر رہے ہیں ‘ اس میںکامیاب ہونگے۔سرمایہ دار نظام میں استحصالی جمہوریت کی بنیاد ایک ایسی منفی سوچ کے سیاسی کلچر پر ہوتی ہے جہاں ذات، برادری، قبائلی اور لسانی تعصبات کے علاوہ لینڈ مافیا،ڈرگ مافیا اور بین الاقوامی ممالک کے سرمایہ دار جن کیلئے پاکستان ایک تجارتی منڈی ہے اپنے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ہمارے سیاسی لیڈروں کی نا پختہ سوچ و فکر کو اپنے مفادات میں اس طرح پروان چڑھاتے ہیں کہ انہی کے تھنک ٹینکس اور مقامی اسٹیبلشمنٹ مل کر ان لیڈران کے انداز فکر پر نظریے کی ملمع کاری بھی کردیتے ہیں جب لیڈر یہ دہائی دیتا ہے کہ میں ہمیشہ سچ بولوں گا تو آصف احمد علی پکار اٹھتا ہے کہ مجھ سے وعدے کئے گئے میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی۔خورشید قصوری کو اس لئے ٹکٹ دیدیا گیا کہ وہ سرمایہ دار ہے اور تحریک انصاف کو سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔وہ مشرف کا ساتھی تھا میں نے قومی اسمبلی سے سیٹ چھوڑی مگر مجھے آج یہ دن دیکھنا پڑا۔ آصف احمد علی کو تو پیپلز پارٹی چھوڑنے کا خوب خمیازہ بھگتنا پڑا مگر انعام اللہ نیازی جو عمران خان کا بڑا ٹیلنٹڈ کزن ہے وہ بھی عائلہ ملک کی دولت،مرتبے اور حیثیت کے سامنے راندہ درگاہ ہوگیا۔ایسے ہی جیسے ماجد خان نے جاوید میاں داد کیخلاف بغاوت کروائی اور عمران خان کو کپتان بنایا مگرعمران خان کی عادت ہے کہ وہ ہمیشہ ان فٹ کھلاڑیوں کو ٹیم سے آﺅٹ کردیتا ہے چاہے کوئی اسکا استاد اور محسن ماجد خان ہی کیوں نہ ہو۔ کسی کو نہیں معلوم تو وہ نوابزادہ محسن علی خان،معراج محمد خان،نوید خاں،اکبر ایس بابر،مسعود شریف خٹک اور آج انعام اللہ نیازی سے معلوم کرے کہ کیا سیاست میں وفا، خلوص، قربانی دیرینہ تعلقات کی اہمیت ہوتی ہے نہیں جناب نہیں یہاں شفقت محمود کی حیثیت ہے یا عمران خان کی یا ناہیدخاں کی باقی سب اللہ ہی اللہ۔ میں انعام اللہ نیازی، حفیظ اللہ نیازی اور سعید اللہ نیازی کی خدمت میں غالب کا یہ شعر عرض کرتا ہوں....
میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
قارئین یہ سوچنا کہ محض عمران خاں کے آہنگ ساز نعروں سے پاکستان کے نظام سیاست میں ایک جوہری تبدیلی آجائیگی انکے اقتدار میں آنے سے بیورو کریسی کا چلن درست ہوجائیگا۔تھانہ کلچر میں تبدیلی آجائیگی غیر ملکی زرمبادلہ کے ڈھیر لگ جائینگے اور عمران خان کالا باغ ڈیم بنالیں گے ڈرون حملے رک جائینگے۔ لوڈشیڈنگ ختم ہوجائیگی ۔صحت ،تعلیم اور روزگار کے مسائل چند دنوں میں حل ہوجائینگے ایسا تو تبھی ہوسکتا ہے کہ عمران خان کے ہاتھ کوئی الہ دین کا چراغ ہو، وہ اسکو رگڑے جن حاضر ہوجائے اور عمران خان اس سے کہے کہ پاکستان کے تمام مسائل چٹکیوں میں حل کردو بالفرض اگر اقتدار کا ہُما عمران خاں کے سر پر بیٹھ بھی جاتا ہے تو کیا وہ ملک میں انقلابی اقدامات کرنے کی جرا¿ت کرسکے گا۔پاکستان جو کثیر الجہتی عوامل سے گندھا ہوا ایک ایسا ملک ہے جہاں قومیت، لسانیات،مذہبیت، علاقائیت کی جڑیں اسقدر گہری ہیں کہ جہالت اور اندھی تقلید اور روایات کے حامل عوام کی اکثریت اپنے اپنے لیڈران کو اپنا اپنا دیوتا تصور کرتی ہے جاگیردارانہ پس منظر کے حامل لیڈروں کو خدا کا نائب اور پیر سمجھ کر اُنکے آگے سجدے کیے جاتے ہیں وہاں سیاسی کلچر کی مثبت تبدیلی کے بغیر کیسے روایتی رجحانات کو تبدیل کیا جاسکتا ہے ہمارے سیاسی کلچر کے جامد ہونے کی وجہ سے آج پاکستان کی حالت یہ ہے کہ انسانی ترقی کے پیمانے 2013 کی رپورٹ کیمطابق پاکستانی سیاست صرف 100خاندانوں کی میراث بن گئی ہے عام آدمی کے معیار زندگی اور سماجی فلاح و بہبود کے لحاظ سے پاکستان 186 ملکوں کی فہرست میں 146ویں نمبر پر ہے پاکستان افریقہ کے پسماندہ ترین ملک کانگو سے بھی کم تعلیم اور صحت پر خرچ کرتا ہے کانگو صحت پر اپنی جی ڈی پی کا 1.2 فیصد اور پاکستان0.8 فیصد خرچ کرتا ہے۔کانگو میں تعلیم پر جی ڈی پی کا 6.2فیصد اور پاکستان میں تعلیم پر جی ڈی پی کا محض 1.8 فیصد خرچ کیاجاتا ہے۔ تاہم پاکستان کی 49 فیصد آبادی یعنی 9کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں یعنی انکی فی کس روزانہ آمدنی سوا ڈالر یا اس سے کم ہے اس رپورٹ کیمطابق مشرف کے دور میں عام آدمی کی زندگی آصف زررداری کے دور سے بہتر تھی۔ 2000 سے 2007 تک عام آدمی کے سماجی بہبود کے پیمانے میں 18.9فیصد بہتری آئی اور2008 سے 2012 تک سماجی ترقی کے پیمانے میں صرف3.7 فیصد اضافہ ہوا۔
قارئین محض وعدے سے معاشروں میں تبدیلیاں نہیں آتیں آج پانچ پانچ سال حکومتیں کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ مزدور کی کم از کم تنخواہ 18000 روپے کردیگی اور مسلم لیگ(ن) کا دعویٰ ہے کہ وہ مزدور کو کم از کم تنخواہ 15000 روپے دلوائے گی۔تحریک انصاف کا کہنا ہے وہ تعلیمی بجٹ تین گنا اور صحت کا بجٹ 5گنا بڑھائیں گے مگر کیسے اور کس طرح آج پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں میں جاگیردار سرمایہ دار یا مستند سیاسی کارکن لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا کی سرمایہ کاری سے جوالیکشن لڑینگے تو کیسے ممکن ہے کہ الیکشن جیتنے کے بعد سرمایہ کاروں کے مطالبات پورے نہ کئے جائیں ویسے بھی عمران خان کو لیلائے اقتدار کے حسین خواب دیکھنے سے پہلے دشت صحافت کے صحرانورد مجیب الرحمن شامی کے ان الفاظ پر گہرے غور و غوض کی ضرورت ہے ۔
”جلسہ کتنا ہی بڑا ہو یہ سیاست کا پہلا دوسرا، تیسرا ، چوتھا اور پانچواں قدم تو کہاجاسکتا ہے آخری نہیں ، گھاگ سیاستدان کہتے ہیں عمران خاں نے پارٹی تو بنالی لیکن عام انتخابات کی قیمت پر جو وقت امیدواروں کی تلاش اور انتخابی مہم کی منصوبہ بندی پر صرف ہونا چاہئے تھا وہ اب ہاتھ نہیں آئیگا۔ بہرحال عمران خان اور اسکے ساتھیوںکو معلوم ہوناچاہئے سیاست ایک ایسا کھیل ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کوئے یار سے کوئے دار پہنچ جاتے ہیں اور انکے ابن الوقت ساتھی نئے ٹھکانوں کا رخ کرلیتے ہیں خدا نہ کرے کہ آپ کو بھی اپنے باوفا ساتھی کبھی یاد آئیں....
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے
اِک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کرجانا ہے
پاکستان کا سیاسی کلچر
Mar 31, 2013