آج کل میانوالی پاکستان کے وجود میں ایک گمشدہ آرزو کی طرح وجد کر رہا ہے۔ لگتا ہے جیسے تحریکِ انصاف کا مرکز میانوالی ہو۔ میانوالی میں ابھی سے بے انصافیاں شروع ہو گئی ہیں۔ ایک زمانے میں مجاہد ملت عبدالستار خان نیازی نے میانوالی کو تحریکِ پاکستان کے لئے ایک ڈیرہ بنا دیا تھا۔ مولانا نیازی کو میانوالی نے ایک ارادے کی طرح قائداعظمؒ کے حوالے کیا۔ میانوالی کو مولانا نیازی نے پہچان دی۔ اس سے پہلے میانوالی کے پٹھان اپنے نام کے ساتھ نیازی نہ لکھتے تھے۔ عبدالستار خان نیازی نے انہیں نیازی بنایا۔ وہ حمید نظامی کے دوست تھے۔ نوجوان تب قائداعظم کے سپاہی تھے۔ اب بھی ہمیں قائد کے پاکستان کی ضرورت ہے۔ نیا پاکستان سے کیا مراد ہے؟
عمران خان کو کیوں شرم آتی ہے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ نیازی نہیں لکھتا۔ کیا وہ میانوالی کے لوگوں کو مجاہد ملت نیازی صاحب سے پہلے کے میانوالی میں لے جانا چاہتا ہے۔ اس کا کوئی احسان میانوالی پر نہیں ہے۔ میانوالی اس کا محسن ہے۔ خدا کی قسم وہ عمران کو ایم این اے نہ بناتے تو آج وہ تحریک انصاف کا چیئرمین نہ ہوتا۔
میں نے اسے کئی بار کہا کہ تم میانوالی میں چھوٹا موٹا ہسپتال نہیں بناتے تو کبھی سرخرو نہ ہو گے۔ کینسر ہسپتال نہ بناﺅ عام ہسپتال بنا دو۔ میں نے کئی کالم لکھے۔ اس نے مجھ سے غصے میں کہا کہ میں میانوالی میں ہسپتال بناﺅں گا۔ تم میری جان چھوڑو۔ میں نے اسے کہا کہ تمہارا یہ وعدہ ریکارڈ پر لے آﺅں گا مگر میں اپنے لوگوں کو آف دی ریکارڈ کیا بتاﺅں۔ عمران ناراض ہے اور کسی پہ اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں۔
ایک نوجوان میانوالی کا ہے وارث نیازی۔ وہ میانوالی کے لاوارث لوگوں کے لئے درد کا ایک دریا اپنے دل میں لئے پھرتا ہے۔ وہ سیاست نہیں کرتا اور نہ کچھ بننا چاہتا ہے۔ مہینے میں کئی دن لاہور میں گزارتا ہے۔ میانوالی کے غریب اور بدنصیب لوگوں کے لئے تڑپتا رہتا ہے۔ مجھ سے کہتا ہے کہ وہاں لوگ لاہور تک آنے کا کرایہ نہیں رکھتے وہ اپنا علاج کیسے کروائیں گے۔ جیسے تیسے ان کو لاہور لاتا ہے۔ ان کے ٹیسٹ کرواتا ہے علاج کرواتا ہے۔ واپسی کا کرایہ بھی دیتا ہے خود اس کے پاس کچھ نہیں۔ جن کے پاس ہے ان سے لے کے ان پر خرچ کرتا ہے۔ جن کے پاس کچھ نہیں۔ اسے ماں کا انصاف کہتے ہیں جس بیٹے کے پاس نہیں ہے اس کو دیتی ہے۔ اس بیٹے سے لے لیتی ہے جس کے پاس بہت ہے۔ تحریک انصاف والے اس پر زیادہ غور کریں۔
لوگ لاہور آنے کا خیال ہی نہ کریں۔ وہاں ان کے ٹیسٹ ہوں۔ ان کے مرض کی تشخیص ہو۔ ان کا علاج ہو۔ وہ اپنے گھر میں ہوں۔ اپنے عزیزوں، رشتہ داروں کے پاس ہوں اور مطمئن ہو کے اپنا علاج کرا سکیں۔ ہمارے لوگ جب دوسرے گاﺅں بھی آ جائیں تو خود کو پردیسی سمجھتے ہیں۔ کئی مرد عورتیں سسک سسک کر مر جاتے ہیں اور انہیں میانوالی سے نکلنا نصیب نہیں ہوتا۔ وہ تو اپنے گاﺅں سے میانوالی شہر نہیں آ سکتے۔ لاہور کیا آئیں گے۔ ہزاروں کی تعداد میں ہیپاٹائٹس کے مریض ہیں۔ انہیں عمر بھر پتہ ہی نہیں چلتا کہ انہیں کچھ ہو گیا ہے۔ پتہ چلتا بھی ہے تو دیر بہت ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ مرنے کے لئے اپنے گھر سے لاہور نہیں آ سکتے۔ ان کے لئے لاہور آ کے علاج کرانا ایسے ہی ہے جیسے کسی سے کہا جائے کہ تمہیں اپنے علاج کے لئے یورپ جانا ہو گا۔
کیوں ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے سارے شہروں میں اتنی سہولتیں ملیں کہ وہ کہیں جانے کا نہ سوچیں۔ لاہور میں علاج اتنا آسان اور سستا نہیں ہے۔ یہاں بھی لوگ ہسپتالوں میں دھکے کھاتے ہیں مگر یہ تو ہے کہ مرنے والے کے رشتہ دار سوچتے ہیں اللہ کی مرضی کے آگے کوئی کیا کر سکتا ہے۔ لاہور تک تو لے آئے۔ وہ جو ہسپتال کے بہت قائل ہیں میانوالی میں ڈسٹرکٹ ہسپتال ہے اسے بھی میو ہسپتال کہتے ہیں۔ وہاں بھی کچھ نہیں مگر پھر بھی مرنے کے لئے لاہور کا میو ہسپتال ایک آئیڈیل جگہ ہے۔
وارث نیازی لوئر مڈل کلاس کا ایک جنون والا نوجوان ہے۔ وہ اپنے ارادوں میں ضرور کامیاب ہو گا۔ عمران نوجوان کی بات کرتا ہے۔ جنون کی بات کرتا ہے۔ نظرئیے کی بات کرتا ہے۔ نوجوان اس بار مایوس ہوئے تو مر جائیں گے۔ ان کے اندر کا سونامی خود انہیں ہی ڈبو دے گا۔ کوئی بھی نہیں سوچتا کہ عمران جو کہتا ہے یہ پہلے بھی کہا جاتا رہا ہے۔ یہ کیسے ہو گا؟ مگر انہیں شاید یقین ہے کہ یہ ہو گا اور اگر نہ ہوا تو پھر؟ اس کے بعد میری زبان لڑکھڑا جاتی ہے۔
عمران سے تو ایک ہسپتال بھی نہ بن سکا۔ میانوالی اس کی بیس (بنیاد) ہے۔ وہ میانوالی کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ پہلے وہ میانوالی کا تو بنے اس نے لاہور کے بعد کراچی اور پشاور میں کینسر ہسپتال بنانا شروع کیا ہے۔ میانوالی کا یہ قصور ہے کہ یہ کسی صوبے کا صدر مقام نہیں ہے۔ مگر یہ عمران کا شہر ہے۔ اس نے یہاں نمل یونیورسٹی بنائی۔ یہ بہت بڑا کام ہے مگر لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے ضرورتیں پوری کرو۔ یہاں کھوتیوں پر حاملہ عورتوں کو لاد کر لوگ ہسپتال کی تلاش میں نکلتے ہیں اور زچہ و بچہ راستے میں مر جاتے ہیں۔ شوگر کی وجہ سے کوئی ادھ موا ہوتا ہے تو لوگ اسے شربت پلا پلا کے مار دیتے ہیں کہ بے چارے کا دل گھبرا رہا ہے۔ دل کا مرض ہے۔ تپ دق ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اسے جنات چمٹ گئے ہیں۔ بیماریاں جنات ہی تو ہوتی ہیں۔
مجھے سابق وزیراعظم گیلانی نے نمل یونیورسٹی کے افتتاح سے واپسی پر ایک ملاقات میں کہا کہ وہاں مجھے بتایا گیا نمل پہاڑ کے دوسری طرف ڈاکٹر اجمل نیازی کا گاﺅں ہے۔ تم کیوں نہ آئے۔ میں نے کہا کہ میرے علاقے کے لئے یہ ایک اعزاز کی بات ہے مگر مجھے بلایا ہی نہ گیا تھا۔ مجھے اپنے شہر میں کسی اجتماع میں عمران نے نہیں بلایا۔ میں ایک قلندرآدمی ہوں۔ عمران کا خیال ہے کہ کوئی اور میانوالی کی ترجمانی کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ کیا اب میانوالی سے نسبت کے لئے عمران کے ہاتھ پر بیعت کرنا ضروری ہو گیا ہے؟ یہ تو میانوالی کو پتہ چل گیا ہے کہ ان کے لئے کسی ”اپنے“ نے کچھ نہیں کیا۔
وارث نے میانوالی کے لوگوں کے دکھ دور کرنے کا جو ارادہ کیا ہے میں اس کے ساتھ ہوں۔ میانوالی کے زندہ لوگو! وارث کا ساتھ دو۔ ان کا ساتھ نہ دو جو تمہیں لاوارث کرکے بھاگ جاتے ہیں۔وارث نیازی کا موبائل نمبر ہے: 0300-7048857
ایک شخص اور ہے عطاءاللہ عیسیٰ خیلوی۔ اس نے میانوالی کو پہچان دی
بھانویں وسیں تو ولایت۔ اساں کرنی نہیں رعایت
تینوں لے کے جانا اے میانوالی
عطاءاللہ یہ بھی کرے کہ میانوالی کے لوگوں کے لئے میانوالی کو اس قابل کر دے کہ وہ یہاں عزت اور سہولت سے رہ سکیں۔ میں اسے محبوب رکھتا ہوں۔ اس نے میانوالی کو محبت کے قابل بنا دیا ہے۔ وہ یورپ جا کے بھی عیسیٰ خیلوی ہے۔ یہ اپنی روایت سے جڑے رہنے کی غیرت ہے۔ عمران خان تو اپنے نام کے ساتھ نیازی لکھنے کی خواہش بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ عطاءاللہ نیازی نے عیسیٰ خیل میں ایک شاندار حویلی بنائی ہے۔ یہ تو خوانین عیسیٰ خیل کو ہرانے کا ایک انداز ہے۔ اب خوانین اور خواتین میں فرق نہیں۔ یہ حویلی نہ سہیلی بنی ہے نہ پہیلی بنی ہے اب وہ عیسیٰ خیل میں ایک جنازگاہ بھی بنوا رہا ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے مگر زندہ لوگوں کے لئے ایک ہسپتال بھی بنوا دو۔ وارث نیازی کی مدد ہی کرو۔ لوگ تمہیں سنتے ہیں ناچتے ہیں اور روتے ہیں۔ تم سے پیار کرتے ہیں۔ تم نے انہیں دکھ یاد دلائے ہیں تو دکھوں کا علاج بھی کرو۔
عمران نے کالاباغ ڈیم کے لئے کہا کہ یہ میرا ساتوں وعدہ ہے۔ ہم خوش ہو گئے ہیں۔ تم کالاباغ ڈیم بنواﺅ تو یہ تمہارے حکمران بننے سے بھی بڑی بات ہو گی۔ مجھے لگتا ہے کہ ایک زمانہ آنے والا ہے کہ میانوالی مسکرائے گا تو پورا پاکستان مسکرائے گا۔ لوگو خیال کرو کہ کالاباغ ڈیم پاکستان کے لئے کتنی بڑی نعمت ہے اور کالاباغ میانوالی میں ہے۔
میانوالی مسکرائے گا تو پاکستان مسکرائے گا
Mar 31, 2013