کائنات میں کچھ ہستیاں ایسی پیدا ہوئیں اور تا قیام قیامت پید ا ہوتی رہیں گی کہ جن کی زندگیاں دوسروں کے لئے مشعلِ راہ ہوتی ہیں۔ ایسی شخصیات جب روشنی کی کرنیں اپنی زندگیوں میں بکھیرکر اس دارِفانی سے رخصت ہوتی ہیںتو بعدمیں آنے والے لوگ مدتوں اس روشنی سے راہ پاتے ہیں اور اپنے آپ کو بھٹکنے سے محفوظ رکھتے ہیں۔ایسی ہی شخصیات میں سے ایک علامہ احسان الٰہی ظہیر تھے۔وہ سیالکوٹ کے ایک کاروباری مگر دین دوست گھرانے میں 31مئی 1940ء کو پیدا ہوئے۔ شروع ہی سے پڑھنے لکھنے کی طرف راغب تھے ۔ ساڑھے آٹھ برس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا۔ابتدائی تعلیم جامعہ شہابیہ سیالکوٹ سے حاصل کرنے کے بعد گوجرانوالہ کے جامعہ اسلامیہ میں داخلہ لے لیا۔ یہاں مولانا ولی العصر مولانا البرکات ؒ اور محدث العصر علامہ محمد گوندلویؒ سے فیض حاصل کیامزید تعلیم کے حصول کے لئے جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں داخلہ لے لیا۔ جامعہ سلفیہ سے سند ِفراغت نمایاں پوزیشن میںحاصل کرلینے کے بعد ان کے اساتذہ نے انہیں جامعہ کی طرف سے سعودی عرب کی ــ''الریاض یونیورسٹی" میں مزید تعلیم کے لئے بھیج دیا۔
1970ء میں مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد انہوں نے سعودی عرب اور پاکستان کے علاوہ بعض دوسرے ممالک سے آنے والی اعلیٰ عہدوں کی پیشکشوں کو ٹھکراتے ہوئے تبلیغ وتحریر کے مشن کو اپنایا اور تادمِ ِ آخر اسی سے وابستہ رہے۔
علامہ شہیدؒ نے 1968ء میں باقاعدہ سیاست کا آغاز اقبال پارک میں خطبہ عید کے دوران کیا اس وقت کیا جب جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ ابتداء میں علامہ ظہیر ؒ تحریکِ استقلال سے وابستہ ہوئے تو انہیں تحریک کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات بنا دیا گیا۔بعد ازاںقائم مقام سربراہ بھی رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی نام نہاد عوامی حکومت کے خاتمے کے لئے علامہ نے ـ''تحریک ِ ختم نبوت میں بڑے جوش و خروش سے حصہ لیا اور تحریک کے اہم مرکزی قائدین میں شمار ہوئے۔'' 1977ء کی تحریک میں بھی سرگرم رہے ،قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں،مقدمات جھیلے، ان پر بھٹو حکومت کے دوران 95 سیاسی مقدمات قائم کئے گئے۔ جن میں قتل کے مقدمات بھی شامل تھے بعدازاں تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان سے اختلافات کی وجہ سے انہوں نے تحریک استقلال سے علیحدگی اختیار کرلی وہ ایم آر ڈی کی رونق تھے لیکن ایم آر ڈی میں باقاعدہ شامل نہ ہوئے۔ پنجاب میں وہ جنرل ضیاء الحق کے سب سے بڑے مخالف خیال کئے جاتے تھے۔ وہ مارشل لائی نظام حکومت کو اسلام کے منافی قرار دیتے تھے۔انہوں نے ایک سہ جماعتی اتحاد بھی بنایا جو عام اتحادوں کی طرح زیادہ دیر نہ چل سکاپھر انہوں نے اپنی جماعت کو سیاسی قوت بنانے کا فیصلہ کر لیا یہ فیصلہ انہوں نے اس وقت کیا جب ان کی اپنی جماعت کے بہت سے علماء حضرات مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے تھے انہوں نے جماعت کے بزرگوں میاں فضل حق مرحوم ، معین الدین لکھوی سابق ایم این اے، عبدالقادر روپڑی مرحوم اور مولانا محمد حسین شیخوپوری سے درخواستیں کرنے کے بعد جمعیت اہل حدیث کے نام سے الگ جماعت بنا لی۔ جس کے سربراہ مولانا محمد عبداللہ مرحوم پرنسپل جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ منتخب ہوئے اور علامہ ظہیر ناظم اعلیٰ ، انہوں نے اہل حدیث نوجوانوں کو اہل حدیث یوتھ فورس کے پلیٹ فارم پر جمع کرنا شروع کردیااور براہِ راست نوجوانوں کی تربیت شروع کی دوسری طرف ان کی یہ کوشش رہی کہ وہ تما م اہل حدیث جو دوسری جماعتوں میں شامل ہیں ان کو واپس لایا جائے ۔ علامہ شہیدؒ کی کوششوں سے بہت جلد جمعیت اہل حدیث ملک کی صفِ اول کی سیاسی جماعتوں کے شانہ بشانہ آکھڑی ہوئی۔ موچی دروازہ ، لیاقت باغ، نشتر پارک ، قلعہ کہنہ، قاسم باغ، دھوبی گھاٹ فیصل آباد ، شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ ، وائس آف جرمنی، وائس آف امریکہ اور بی بی سی کے تبصرے اس بات کے واضح گواہ ہیں کہ مارشل لاء کے حواریوں کو علامہ مرحوم خار کی مانند کھٹکتے تھے ۔ شریعت بل پیش ہوا تو مختلف فورموں میں بالخصوص اور عوامی جلسوں میں بالعموم انہوں نے شریعت بل کے پرخچے اڑا دئیے ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اہلِ حدیثوں اور بالخصوص میرے ہوتے ہوئے کوئی عوام کو بیوقوف نہیں بنا سکتا۔
عالم باعمل، محدث العصر، مفتی دوراں، شعلہ نوا مقرر ، نامور ادیب ،عظیم صحافی، اعلیٰ مبلغ اور کئی دینی کتابوں کے مصنف علامہ احسان الٰہی ظہیر 23مارچ 1987ء بروز پیر قلعہ لچھمن سنگھ لاہور کے وسیع میدان میں سیرت النبی ﷺ کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے بم دھماکہ کا شکار ہو گئے اور علامہ حبیب الرحمان یزدانی، خان نجیب خان ، عبدالخالق قدوسی سمیت کئی ساتھیوں کے ہمراہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے وہ سات دن تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہے اور بالآخر30مارچ 1987ء بروز پیر سعودی عرب میں شہادت کے رتبے کو پاگئے۔ انہیں جنت البقیع میں محدث زماں امام مالکؒ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
مرحوم ایک عظیم خطیب، نامور مصنف ،منتظم اور گوناگوں صفات کے حامل تھے۔ حکومت ِ وقت کے ایوانوں میں ان کی گھن گرج سے لرزہ طاری ہو جایا کرتا تھا۔ وہ پاسبانِ قرآن و سنت تھے اور ملک میں فی الواقع قرآن وسنت کی حکمرانی کے خواہاں تھے۔ وہ کسی خاص فقہ کے ملک میں نفاذ کے حامیوں کے لئے ایک صاعقہ مرسلہ تھے حقیقت تو یہ ہے کہ علامہ شہید ؒ جیسی شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ اللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔(آمین)