لاہور لہو لہو! فیصلہ کن مرحلہ

سن رہا ہوں درد کی اِک چیخ میں
دام میں ہے جیسے ایک معصوم جاں!
درد میں ڈوبی ہوئی جس کی صدا
آرہی ہے کس طرف سے کیا کہوں؟
جو بلاتی ہے مجھے بہرمدد!
ہے ہوا میں خوف اس آواز سے
ڈر ہے ہر اِک چیز پر چھایا ہوا
میں صدا سن کر کہاں ڈھونڈوں اسے
خوف کی زد میں ہے پوری کائنات
سلوٹیں چہرے پہ اس کے کرب کی
پڑتی ہیں جب وہ بلاتا ہے مجھے
حیف لیکن وہ کہاں ہے کیا کہوں؟
صبر کر اے ننھی سی معصوم جاں
میں ہوں تیری جستجو میں ہر طرف
جیمز اسٹیفنز کے یہ اشعار، جو احمد عقیل روبی نے خوبصورت ترجمے کے ساتھ پیش کیے ہیں، لاہور سانحے کے بعد میرے حواس پر چھائے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر چلنے و الی وہ تصویر جس میں ایک معصوم بچی شہادت کی انگلی اٹھاکر ہمارے صبر اور ہماری آزمائشوں کا امتحان لے رہی ہے۔ میں اِس دُکھ اور اس کرب کو کیسے بیان کروں!
ملکی تاریخ کا ایک اور بد ترین دن 27 مارچ جب لاہور کے گلشن اقبال پارک میں دہشت گردی کے واقعے میں شہری جاں بحق ہوگئے۔ اس سے قبل اقبال ٹائون کے علاقے کو کئی بار دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔ اقبال ٹائون مون مارکیٹ میں دو دھماکے کیے گئے تھے جبکہ گلشن اقبال تھانے کے باہر بھی حملہ کیا گیا۔ یہ علاقہ ایک بار پہلے بھی دہشت گردوں نے میدان جنگ بنایا تھا۔ جب کبھی کسی گلی کسی گھر کے باہر کریکر دھماکے کیے گئے۔ اسی اقبال ٹائون سے ملحقہ سبزی منڈی میں بھی بم دھماکا کیا گیا تھا۔
لاہور سانحہ کی بہتی گنگا کے دکھوں میں سب نے سیاست کی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے خون کا عطیہ دینے پر سوشل میڈیا میں طوفان برپا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ شہباز شریف بلڈ عطیہ کرنے کیلئے ان فٹ ہیں تو پھر یہ دُنیا کو دکھانے کے لیے ہی کیوں کیا جارہا ہے؟ میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتی۔ ادھر وزیراعلیٰ سند ھ بھی بلاول بھٹو کے ہمراہ لاہور پہنچے۔ اپنے صوبے کے مرتے لوگوں کی ذمہ داری تو وہ لے نہیں سکتے، مگر لاہور دھماکے کے زخمیوں کیلئے اعلانات کرکے چلے گئے۔
مسلم لیگ ن کے سنیئر رہنما صدیق الفاروق نے لاہور سانحہ کے بعد اپنے انٹرویو میں کہا کہ دہشتگردی کو ختم کرنا ہے تو ملک میں 6مہینے کیلئے ایمرجنسی لگادی جائے۔ سکول کالجز بند کردیئے جائیں تب ہی دہشتگردی ختم ہوسکتی ہے۔ صدیق الفاروق کی یہ بات سن کر میں نے حیرت سے کہا جناب صدیق الفاروق صاحب آپ یہ بات کررہے ہیں کہ ملک میں ایمرجنسی لگنی چاہیے؟ جو مشرف کی ایمرجنسی میں ماریں کھارہے تھے اور ہمیشہ مشرف کی ایمرجنسی کے خلاف تھے۔ اب منتخب جمہوری حکومت ملک میں ایمرجنسی لگادے گی، اور نظام زندگی 6مہینے کیلئے معطل ہوجائے گا؟ اسکے اثرات اور نتائج کا اندازہ ہے آپ کو؟ جب 126دن پی ٹی آئی نے دھرنا دیا اور آپ نے کہا تھا کہ چائنیز صدر پاکستان نہیں آسکے اور انویسٹمنٹ نہیں آئی جس سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا۔ آج تک حکومت اپنی بہتر کارکردگی میں سستی اور رکاوٹ جس دھرنے کے 126دن کو قرار دیتی ہے۔ اگر ایمر جنسی لگادی گئی تو کیا یہ اس سے بڑھ کر نہیں ہوگا؟
لاہور سانحہ کے بعد وزیراعظم نے پہلے اپنا برطانیہ اور پھر امریکہ کا دورہ منسوخ کیا جس سے قومی یکجہتی کا پیغام گیا۔ مگر وزیراعظم کے قوم کو کیے گئے خطاب میں ابہام تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایسے موقع پر مخاطب ہوں جب گلشن اقبال پارک لاہور کے المناک سانحہ کے باعث ہر پاکستانی کا دل زخمی ہے۔ پوری قوم رنج وغم میں مبتلا ہے۔ وزیراعظم نے پختہ عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ آخری دہشتگرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ دہشتگردوں کے سر پرست اور مددگار بچ نہیں سکیں گے۔ اس پر تنقید کی گئی کہ خطاب روایتی تھا۔
اس سے پہلے عسکری قیادت نے اتوار کی رات لاہور دھماکے کے بعد ہی پنجاب میں آپریشن کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ ہونا یہ چاہیے تھاکہ وزیراعظم کلیئر کرتے کہ لاہور پارک دھماکے کے بعد پنجاب میں آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔
وزیراعظم نے صرف Die More تو کہا، مگر ایکشن پر عسکری قیادت کے فیصلے کی حمایت کی بجائے ابہام چھوڑ دیا۔ جس کی وجہ سے سول اور عسکری تعلقات کے ایک ساتھ نہ ہونے کا تا ثر ملا۔ اس کو تقویت رانا ثنا ء اللہ کے بیان نے بھی دی جن کا کہنا تھا کہ پنجاب میں کوئی آپریشن نہیں ہورہا ہے۔ گو کہ بعد میں جو ائنٹ انٹیلی جنس آپریشن کا بیان سامنے آیا۔
لاہور کی اتنی بڑی دہشت گردی کے بعد جی ایچ کیو اور وزیراعظم کا علیحدہ اجلاس یہ بھی بتاتا ہے کہ فوج پہلے ہی ان خدشات سے آگاہ تھی، جس کی وجہ سے بار بار سول حکومت اور پنجاب کی صوبائی حکومت کو آپریشن کی تجویز دی گئی مگر حکومت نے نہ مانی تو آپریشن ضربِ عضب کا دائرہ وسیع کرکے اے پی ایس حملے کا بعد کا قدم اٹھایا۔ ایسے ہی پنجاب میں حکومت کی منشا نہ ہوتے ہوئے اب آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ دہشتگردی کیخلاف یہ جنگ چونکہ فوج نے ہی شروع کی ہے، اس لیے اسے منطقی انجام تک پہنچانا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ فوج اور خاص کر آرمی چیف اس ناسور کو ختم کرنے کیلئے آخری حد تک جائیں گے۔
وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت کسی قسم کے حیلے بہانے کی بجائے اداروں کے ساتھ تعاون کرے اور دہشت گردی کی لعنت سے قوم کی جان چھڑائے، ورنہ خدانخواستہ ہم اسی طرح اپنے بچوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ اسی طرح خوف کے سائے میں جیتے رہیں گے۔
o

ای پیپر دی نیشن