کالے قوانین سے کشمیریوں کی نسل کشی کی گئی، ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ کا نعرہ لگانا قبول نہیں: فاروق عبد اللہ

سرینگر (اے این این) مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اعتراف کیا ہے کہ وادی میں بھارت کے کالے قوانین کے ذریعے کشمیریوں کی نسل کشی کی جاتی رہی ہے، مقبوضہ کشمیر میں بہت خون بہا، بستیوں کی بستیاں اجاڑی گئیں، مقبوضہ کشمیر میں بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانا ناقابل قبول ہے، کسی کو یہ نعرہ لگانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ پارٹی ہیڈکوارٹر نوائے صبح کمپلیکس میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری ریاست میں کافی خون بہایا گیا۔ بستیوں کی بستیاں اْجاڑی گئیں، افسپا اور دیگر کالے قوانین کی آڑ میں نوجوانوں کی نسل کشی کی گئی، ہم نے اْس وقت بھی عدم تشدد کی وکالت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری نظام میں زور و زبردستی کی کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے کہا تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ عدم تشدد اور بات چیت کے ذریعے ہی دنیا میں بڑے بڑے مسائل کا حل نکالا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے امریکہ، برطانیہ اور یورپ ، افریقہ اور عرب ممالک اور کئی مسلم ممالک کا دورہ کیا اور وہاں کے سربراہوں اور مسلم لیڈران سے ملاقات کی اور انہیں اپیل کی کہ وہ متحد ہوکر ایسے عناصر کیخلاف صف آراء ہوجائیں جو اسلام کے نام پر تشدد کے ذریعے انسانی خون بہا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور کے واقعہ نے عالم انسانیت کے دل دہلا دیئے، جس میں معصوم بچوں اور خواتین کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ پاکستان، بھارت دوستی کا کوئی متبادل نہیں اور دونوں ممالک کے پاس بات چیت کے ذریعے تمام حل طلب معاملات کو افہام و تفہیم سے سلجھانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ ڈاکٹر فاروق نے بھارت اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ آر پار جموں وکشمیر کو جوڑنے والے تمام راستوں کو کھول دیں۔ سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ آنے والا وقت ہی بتائے گا پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کی آمد سے بھارت کو فائدہ ملے گا یا نہیںتاہم انہوںنے امید ظاہر کی کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اقدامات کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح پاکستانی ٹیم کو آنے کی اجازت دینے کے علاوہ تحقیقات کی اجازت بھی دی گئی، اسی طرح بھارتی ٹیم کو ممبئی اور دیگر حملوںکی تحقیقات کی اجازت دی جانی چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...