دیکھتے رہنا اور پھر غور کرنا بہت آسان بھی ہے اور اگر مسلسل غور کرتے کرتے تھکاوٹ آکر ذہن کو پسپا کر دے تو زندگی و موت سے ہمکنار ہونے پر ترجیح دیتی ہے۔ روزانہ خبر سنتے ہیں اور خبر پڑھتے ہیں لیکن بے خبری کا خمار نہ اترتا ہے اور نہ ختم ہوتا ہے۔ خمار ہی خمار ہے۔ کہتے ہیں کہ موت سے پہلے بھی ایک خمار چڑھتا ہے اور پھر اترتا نہیں بلکہ زندہ کو گور میں اتار کر ہی کہیں چلا جاتا ہے۔ عوام بے چارے تو ذلت کے خمار میں مبتلا ہیں ان کی موت کا خمار گم ہو کر مر گیا ہے۔ نہ جیتے چین ہے اور نہ ہی مرتے چین …؎
اب تو کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ آیا تو کہاں جائیں گے
موت زندگی کا آخری موضوع ہے لیکن زندگی کی ذلت کے کتنے ہی موضوع ہیں اور قوم کی زندگی کے موضوعات کا نہ ابتدائی سرا نظر آتا ہے اور نہ ہی اختتامی منزل کا کچھ پتہ چلتا ہے۔کچھ ہیں ایسے لوگ جن کے سروں پر انسانیت کی دستار کا بڑا چرچا ہے اور انکی آنکھوں پر اقتدار کی چربی یوں چڑھی ہے کہ اب ان کو رعایا کسی اور رنگ میں دکھائی دیتی ہے۔ ان کا آہنگ حکم بہت ترنم ہے اور انکی آواز دوست میں بہت ہی خفیف سی آواز ابلیسی قہقہے کی بھی سنائی دیتی ہے۔ یہ انسان دوستی کے دستار بردار اپنا ہی حلقۂ یاراں رکھتے ہیں۔ جو بھی انسان دشمن اخلاق باختہ دنیا کے کسی بھی کونے میں نظر آئے تو وہ انکا دل بگڑا یارِ جاں ہے۔قریب قریب تو ایمان فروشوں کے محلے سے اپنے ہی ہم نفس دستار بردار اور ٹیڑھے کردار صاحبانِ بے وقاران کو قبائے تقویٰ میں لپٹے لپٹائے مل جائینگے۔ جو اخلاقیات، اعتبارات اور اعتمادات کا خفیہ کاروبار کرتے ہیں۔ زبان پر رام رام اور بغل میں چھریوں کا جہاں آباد کئے جبہ و دستار سمیت رقص نفس فروشی کرتے ہیں۔ نام فقیری کا استعمال کرتے ہیں اور نشہ وزیری کرتے ہیں۔ ہر دور اور ہر دائرے میں ان کا دورِ لذت مسلسل نشہ آفریں رہتا ہے۔پہلے بہت زیادہ تھا اب دیہاتوں میں کم کم نظر آتا ہے۔ لوگ بندر پالتے تھے اور نچاتے تھے۔ کچھ ریچھ والے تھے۔ ریچھ کے ساتھ رہ رہ کر ریچھ ہی بن جاتے تھے۔ کسی منگتے تماشہ گر نے ایک بکری، ایک بندر کے ساتھ ایک سدھایا ہوا کتا بھی رکھا ہوتا ہے۔ بس قلندر آگے آگے بچوں کا جلوس پیچھے پیچھے، بندر، بکری، کتا جلوسِ بچگانہ کی مرکزی رونق، زندگی پررونق، عجب ناسمجھ غریب سمجھ دار جلوس لئے پھرتا ہے۔ کبھی ڈگڈگی بجاتا ہے۔ کبھی بانسری کی لے پر مجمع اکٹھا کرتا ہے۔ مجمع ہوش مست، کبھی بدمست اور جادوگرا بین بجا کی مست تمنا لئے راہ میں کھڑا مجمع اپنے آپ سے اپنے حالات سے بے خبر بندر، بکری، کتے پر نظر گاڑے کسی نئے تماشے کا منتظر ہے۔راستہ رک گیا، کسی نے آخر خاموشی سے پٹاخہ چلا دیا، مجمع میں بھگدڑ مچی، قلندر چلایا کہ خاموش اپنی اپنی جگہ کھڑے رہو، تماشہ ہو گا اور خوب ہو گا پھر تماشہ چلتا ہے اور آخر میں قلندر بھکاری ہاتھ جوڑ کر پیٹ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ مطلب کا سوال کرتا ہے۔ روٹی مانگتا ہے۔ کپڑے مانگتا ہے۔ پیسے مانگتا ہے۔ اب قلندر نہیں سکندر تماشہ سجاتا ہے، ادھر ادھر کی کہانیاں سناتا ہے۔ لوگوں کو کوستا ہے۔ اپنے پیٹ کی سوچتا ہے۔ لوگوں کو جما کر رکھتا ہے۔ ہر خطرے سے آزاد رہنے کی خوشخبری سناتا ہے۔ مجمع کو بے فکر کرتا ہے۔ بے دھیان کر کے اپنی طرف دھیان دلواتا ہے۔ رات کو سورج اچھالتا ہے۔ دن میں تارے زمین پر اتارتا ہے۔ روشن مستقبل کو جھولی میں ڈال کر ضمیر اور ہوش پر غفلت کا پردہ ڈالتا ہے۔ کہتا ہے کہ میں عامل غریب مفلس، غافل تماشہ بین عوام چلاتے ہیں کہ ہم معمولی پھر سکندر کہتا ہے کہ بچہ جمہورا اور بچہ جمہورا تو کون؟ عوام چلاتے ہیں کہ ہم جمہوریت کے بچے ہیں۔ سکندر چلاتا ہے کہ جمہوریت کیا کہتی ہے۔ عوام جواب دیتے ہیں کہ جمہوریت کہتی ہے کہ حقوق عوام کے نہیں ہوتے۔ زبردستی کے پاسبان کے ہوتے ہیں۔ جمہوریت میں آزادی کتنی ہوتی ہے؟ ایک انجانی ان دیکھی صورت کی نامانوس آواز … جمہوریت میں آزادی حکمرانوں اور انکے مداحوں کو نصیب ہوتی ہے۔ جمہوریت میں کاروبار حکمرانوں کے بچوں کا حق ہوتا ہے۔ عقل ہو یا نہ ہو جمہوریت خودبخود عقل سکھا دیتی ہے۔ غریبوں کے مکان سکڑ رہے ہیں۔ راہیں اور شاہرائیں پھیل رہی ہیں۔ کچھ زرداروں کی حرص ہے اور کچھ خدا کا غضب ہے۔ روز نئی بستیاں آباد ہو رہی ہیں۔ زمینیں آسمان آباد کر رہی ہیں۔ خدا کا غضب یہ ہے کہ پانی برستا نہیں ہے۔ برستا ہے تو رکتا نہیں ہے۔ سیم ہے۔ تھور، کلر ہے۔ کہاں ہے یہ سیم، تھور اور کلر۔ ہر جگہ ہے۔ غریب کی زمین میں ہے اور بگڑے دل جمہوریت کی گھٹڑی اٹھائے ہوئے کے دماغ میں ہے۔کچھ جغادری حالات سے کھیلتے ہیں اور کچھ دہشت پسند لاش سے کھیلتے ہیں۔ کوئی قصیدہ پڑھتا ہے تو کسی کو مرثیہ خوانی نے مجبور کیا ہے۔ اہل دل جگر کو تھامتے ہیں اور دل کو پیٹتے ہیں کہ دشمن باہر کھڑا دروازہ پیٹتا ہے۔ تمہارے گھر کی دیواریں بہت کمزور ہیں اور دیکھو چھت بھی کچھ مستحکم نظر نہیں آتی۔ پڑوسی بھی کچھ اچھے نہیں ہیں۔ چور کسی دیوار سے لگا نئے وقت کو دیکھ رہا ہے۔ گھر کے بڑے گھر ہی میں کبڈی کھیل رہے ہیں۔ شہہ زورانِ جمہوریت بہت ہی نشہ اقتدار کی جوانی میں مست قدم اٹھاتے ہیں۔ کھلاڑی ترنگ میں آتا ہے اور کوڈی کوڈی کوڈی سے کوڈی کوڈی کوڈی کرتا ہوا سمندر کو پھلانگتا ہوا دھڑام سے میدانی خطے میں آکر آنکھیں گھماتا ہے۔ دوسرا کھلاڑی اپنے بڑھاپے کو قبائے شباب اوڑھا کر سمندر کے کنارے جا کر للکارتا ہے کہ ہم تمہارا سانس بند کر دینگے۔کبڈی بازوں نے پورے گھر کو اکھاڑہ بنا دیا ہے۔ دشمن مسلسل دروازہ پیٹ رہا ہے کہ دروازہ کھولو۔ ابھی تو کبڈی ہو رہی ہے۔ دشمن نے دیوار گرا کر دروازہ توڑا تو سب کھلاڑی چھت پر چڑھ جائیں گے اور دنیا کے اس پار اتر جائینگے۔
اتنی نہ بڑھا پاکی ٔ داماں کی حکایت
Mar 31, 2017