آزاد کشمیر کے وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ آزاد کشمیر کے صدر راجا فاروق حیدر خاں نے درست کہا کہ آزاد کشمیر کی قیادت گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق دینے کیخلاف نہیں۔ کشمیریوں کی منزل پاکستان ہے۔ 19 جولائی 1939ء کی قرار داد الحاق پاکستان پر ہم آج بھی کاربند ہیں۔ آزاد حکومت کو بااختیار بنانا چاہتے ہیں۔ آئینی ترامیم میں سب کی رائے کا احترام کیا جائیگا۔ سابق وزیر اعظم اور سالار جمہوریت سردار سکندر حیات سے ملاقات کے بعد راجا فاروق حیدر نے کہا 1974ء کے ایکٹ میں ترامیم لانے کیلئے آزاد کشمیر کی ساری قیادت سے ملاقات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں سالار جمہوریت کی رائے کو اہمیت دی جائیگی۔ گلگت، بلتستان کے عوام کو حقوق ملنے چاہیں۔ جس کی راہ میں ہم رکاوٹ نہیں۔ 11 اپریل کو وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کی قیادت میں قائم کی گئی کمیٹی کا اجلاس ہو گا جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کی طرف سے دی گئی تجاویز کو پیش کیا جائیگا اور جائزہ لیا جائیگا۔ میاں نوازشریف کی قیادت میں آزاد کشمیر کو ماڈل سٹیٹ بنائینگے۔ راجہ فاروق حیدر خاں عوامی رہنما اور وزیراعظم ہیں۔ انہیں کشمیری عوام اور بالخصوص نوجوان طبقے کی حمایت حاصل ہے۔ وہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے پر زور حامی ہیں۔ گڈ گورنس اور میرٹ کو یقینی بنا رہے ہیں۔ سیاست کے بڑے بڑے دائو ، پیچ جاننے والوں کے سامنے معصوم سیاسی کارکن ہیں لیکن کامیابیاں حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم میاں نوازشریف کے بھی پسندیدہ ہیں اور ان کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ صاف گوئی اور بے باقی اور وفاداری نے راجا فاروق حیدر کو اعلیٰ مقام دلایا ہے۔ ایک اچھے سیاسی کارکن کی طرح آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی پیپلز پارٹی آزاد کشمیر، پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں سے رابطے میں ہیں۔ اس موجودہ پاکستان مسلم لیگ اور میاں نوازشریف کے دور حکومت میں خارجہ، داخلہ ، دفاعی اور دیگر شعبہ جات میں قابل قدر مثبت تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں۔ کشمیر اور خارجہ امور پر پاکستان تنہا نظر نہیں آتا بلکہ الٹا بھارت دفاعی پوزیشن میں کھڑا ہے۔ مسلح افواج پاکستان اور حکومت کی ایک سمت نظر آتے ہیں جس سے مسئلہ کشمیر پر ہماری پالیسی میں یکسوئی ہے۔ میاں نوازشریف نے بطور وزیراعظم یو این او اور بین الاقوامی فورم پر کشمیر پر بھارتی ظلم و ستم کو بہتر طریقے سے اجاگر کیا۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پالیسیوں کو استحکام حاصل ہوا۔ بھارت کی پسپائی ہوئی۔ اسکے جواب میں کشمیری عوام نے گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر میں مسلم لیگ کی حکومت کو شاندار کامیابی دی۔ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کو بتایا گیا کہ بھارت کا جاسوسی نیٹ ورک پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کر رہا ہے۔ بلوچستان اور سندھ میں را بھاری رقوم خرچ کر کے لوگوں کو دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ میں کردار ادا کر رہی ہے لیکن اس کو حتمی کامیابی نہیں کہا جا سکتا۔ حکومت اور میاں نوازشریف اور ان کی ٹیم کو مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے اسکے باوجود کہ حکومت کی درست سمت ہے اور غلط سمت اور کمزور کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ طویل دھرنے احتجاج کے باوجود خاطرخواہ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ اس موقع پر جب ملک میں یکجہتی کی فضا کا قائم رہنا بہت ضروری ہے ۔ اب نئی بحث گلگت ، بلتستان کے حوالے سے شروع کر دی گئی ہے حالانکہ گلگت ، بلتستان قیام پاکستان سے پہلے بھی باضابطہ جموں، کشمیر کا حصہ تھا۔ وہاں کے عوام نے طویل جدوجہد کے بعد ڈوگرہ حکمرانوں کے نامزد کردہ حکمران گنسارا سنگھ کو شکست دیکر معزول کر کے گرفتار کر لیاتھا۔ وہاں کے عوام کو آزادی نصیب ہوئی۔ لیکن بے سروسامانی کے عالم میں حکومت پاکستان ، حکومت آزاد کشمیر اور آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے رہنماء قائد کشمیر چودھری غلام عباس کے درمیان ایک تحریری معاہدے کے تحت اس کا عارضی انتظام حکومت پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ بعدازاں اس میں تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں۔ خبر کیمطابق حکومت پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے گلگت، بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی سفارش کی ہے اور مزید وزیر اعظم میاں نوازشریف اس کو صوبہ قرار دینے کیلئے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرینگے۔ اس خبر سے کشمیری رہنمائوں اور عوام میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ماضی کے حالات کے پیش نظر آزاد کشمیر کے رہنمائوں، حکومت اور گلگت، بلتستان کے عوام میں رابطے کا فقدان رہا۔ وہاں کے رہنے والوں کو ان کے حقوق نہ مل سکے۔ جس کی وجہ سے 28 ہزار مربع میل کے علاقہ اور عوام میں احساس محرومی پیدا ہوا۔ پاکستان کی ماضی کی تمام حکومتوں اور کشمیری قیادت نے گلگت، بلتستان کے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش نہ کی۔ اگرچہ گلگت، بلتستان کے حوالے سے بحث دو دھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے۔ کشمیر کے تنازعہ حل کرنے سے پہلے گلگت ، بلتستان کی حیثیت کو متاثر کرنے سے جموں کشمیر کی وحدت بری طرح متاثر ہو گی۔ 70 سال سے پاکستان کے اصولی مئوقف کو بھی دھچکا لگے گا۔ اور بھارت کو اپنے فیصلہ کرنے اور من مانی کرنے کا موقع ملے گا۔ استصواب کی صورت میں یہ علاقہ صوبہ بننے سے ہم لاکھوں ووٹوں سے محروم ہو جائینگے۔ جن کی وجہ سے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے۔ پھر آپ بھارت کے کیے گئے فیصلوں کو مضبوط کرینگے کیونکہ اس نے مقبوضہ کشمیر کو پہلے ہی صوبے کا درجہ دیا ہوا ہے۔ بھٹو نے تو کشمیریوں اور مسئلہ کشمیر کو بہت اہمیت دی تھی لیکن آصف زرداری کی پیپلز پارٹی کا انداز حکومت کاروباری تھا۔ اسکے برعکس میاں نوازشریف کا انداز سیاست قابل ستائش ہے۔ دیگر معاملات کی طرح گلگت ، بلتستان پر کشمیری قیادت کو اعتماد میں لیں۔ اس سے انکی عزت و وقار میں اضافہ ہو گا۔ او آئی سی وفد کو مقبوضہ کشمیر کے دورے سے بھارت کا انکار اور مشکل صورتحال کا بہانہ بنا کر 57 اسلامی ممالک کی تنظیم کے انسانی حقوق کمیشن کو مقبوضہ کشمیر آنے سے روک دیا گیا۔ اس سے آئے بغیر ہی کمشن کو سمجھ جانا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کس اذیت سے گزر رہے ہیں۔ اسکے برعکس پاکستان نے او آئی سی کے آزاد کشمیر کے دورے کی خواہش پر خوش آمدید کہا ہے۔ مسئلہ کشمیر پاکستان، ہندوستان کا مسئلہ نہیں او آئی سی کے چارٹرڈ میں بھی حل طلب مسئلہ موجود ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ملزم کشمیریوں پر ظلم و ستم پر او آئی سی کے ممالک کو تشویش ہے۔