اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت+نوائے وقت رپورٹ+ایجنسیاں) چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر مضبوط معاشرہ قائم نہیں ہوسکتا، کسی بھی معاشرے کی سماجی اور جمہوری ترقی کیلئے قانونی کی حکمرانی لازم ہے، اور اس حوالے سے جسٹس امیر ہانی مسلم کے فیصلوں سے قانون کی ترجمانی کو نئی جہتیں ملی ہیں، بنےادی انسانی حقوق کے مقدمات میں عدالتی فیصلہ حتمی ہوتا ہے، قانون کی حکمرانی کیلئے موثر اور آزاد عدلیہ ضروری ہے، قانون کی حکمرانی انفرادی حد تک محدود نہیں رہنی چاہئے بلکہ اس کے مقاصد اجتماعی ہوں، حکومت کے بھی قانون کے تابع ہونے سے ہی قومی ترقی کا خواب حقیقت بن سکتا ہے۔ حکومت کا قانون کے تابع رہنا لازمی ہے۔ سرکاری محکموں میں رشوت ستانی اور اقربا پروری کا خاتمہ ضروری ہے۔ ان خےالات کا اظہار انہوں نے جسٹس امیرہانی مسلم کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں کےا۔ چیف جسٹس نے جسٹس امیر ہانی مسلم کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے کئی مثالی فیصلے دیئے ہیں جومستقبل کیلئے عدلیہ سے وابستہ افراد کیلئے روشن باب ثابت ہوں گے ۔ آئین کے مطابق گڈ گورنس قائم کرنا حکومت کا کام جبکہ آئین کی تشریح عدالت کا کام ہے آئین و قانون کی خلاف ورزی اور انسانی حقوق کی فرہمی میں تعطل پر عدالت اپنا کردار ادا کرتی ہے اوراسی راستے پرچل کرہی کامیابی کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ میں نے بطورجج اپنی صلاحیتوں کے مطابق انصاف کرنے کی کوشش کی ہے تاہم بحیثیت بشرشاید مجھ سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہوں لیکن وہ ارادتاً ہر گز نہیں تھیں۔اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے جسٹس امیرہانی مسلم کی عدالتی خدمات کوسراہا اور کہا کہ جسٹس امیرہانی نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا تھا۔وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل احسن بھون نے کہاکہ جسٹس امیر ہانی مسلم اعلی پائے کے جج تھے۔ ا نہوں نے کئی اہم فیصلے کئے۔اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری میں ایڈہاک ازم کو ختم کیا جانا چاہئے جبکہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو ریٹائر منٹ کے بعد کوئی سرکاری عہدہ قبول نہیں کرنا چاہئے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہاہے کہ حکومتی اداروں کے اندر استحصال اور منظور نظر افراد کو نوازنے کی مثالیں موجود ہیں جو ملازمین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا باعث بن رہے ہیں، ملک میں گڈگورننس کا قیام نہ ہونے کی اصل وجہ ملکی اداروں میں منظور نظر افراد کا تقرر ہے، یہ عمل ریاستی اداروں کو کمزور کرتا ہے۔قانون کی حکمرانی معاشرے کی معاشی، سیاسی اور سماجی ترقی کی بنیاد ہے۔ قانون کی حکمرانی صرف انفرادی حقوق کے تحفظ اور جھگڑوں کے حل تک محدود نہیں بلکہ اس میں آزاد اور موثر عدلیہ، اختیارات کے غلط استعمال کو روکنا اور قانون کی پابندی کرنے والی حکومت بھی شامل ہے۔ حکومتی اداروں کے اندر قانون کی حکمرانی کے بغیر مثالی معاشرے کا قیام ناممکن ہے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے کرپشن میں کمی، اقربا پروری اور استحصال کو اداروں سے ختم کرنا ہو گا اور آئین اور قانون کا سخت اطلاق کرنا ہو گا۔ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت عدالت عظمیٰ کو مفاد عامہ کے معاملات میں اقدامات کا اختیار حاصل ہے۔ سپریم کورٹ کے سبکدوش ہونے والے جج جسٹس امیر ہانی مسلم نے خطاب کرتے ہوئے کہا عدلیہ کا حصہ بننے پر معلوم ہوا کہ خاردار رستے پہ چل نکلا ہوں۔ ہر کام آزمائش اور ہر قدم امتحان ہے۔
چیف جسٹس
گڈ گورننس نہ ہونے کی وجہ منظور نظر افراد کا تقرر‘ حکومت کو قانون کے تابع ہونا چاہیے : چیف جسٹس
Mar 31, 2017