TOO LITTLE TOO LATE

گذشتہ 23مارچ کے روز پاکستان نیشنل فورم نے بھی پوری قوم کیساتھ یوم پاکستان نہایت جوش وخروش کیساتھ بھر پور طریقے سے منایا۔ وفاقی دارالحکومت میں 31توپوں میں دھماکہ دار آواز میں سلامی دی ۔ یہی عمل تمام صوبوں کے دارالحکومتوں میں 21 توپوں کی سلامی سے دہرایا گیا۔ اسلام آباد میں افواج پاکستان نے ایک شاندار خصوصی پریڈ کا مظاہرہ کیا۔ صدر پاکستان وزیراعظم چیئرمین جائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی آرمی نیوی اور ایئر فورس کے سربراہوں کے ساتھ سلامی کے چبوترے پر موجود تھے اس پریڈ کو راقم نے ’’خصوصی‘‘ اس لیے کہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار چین روس اور ترکی کی افواج کے دستے بھی خیر سگالی کے طور پر اس پریڈ میں شریک تھے۔ افواج پاکستان نے جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر پاکستان دشمن قوتوں کو وارننگ دی کہ وہ وطن عزیز کو عدم استحکام کی سازشوں سے باز رہیں۔ پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا گیا ہے۔لیکن اس خوشی اور جشن کے موقعہ پر یہ یاد رکھنے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ 23 مارچ 2017کے مبارک دن پر پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے 70 برس ہو چکے ہیں اسکے باوجود ہم شاعر مشرق حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال اور بانیء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے تصور پاکستان کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ پاکستان ایک جدید اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست کی عملی صورت اختیار کرنے میں ناکام رہا ہے ۔کیا اس ناکامی کی وجوہات تلاش کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے؟ اس دورانیہ میں 1971ء میں سقوط ڈھاکہ اور پاکستان کے دو لخت ہونے کے دلخراش المیے کیوں پیش آئے وہی قوم جس نے 23مارچ1940کی تاریخی قرار داد لاہور منظور کرنے کے بعد 7سال کے اندر قیام پاکستان کا معجزہ برپا کر دیا تھا۔ وہ آزادی کی نعمت کی حفاظت کیوں نہ کر سکی۔ آزادی کے ابتدائی چند سا لو ں میں بھارت نے آئین بھی بنا لیا۔ قومی اور صوبائی سطح پر آزادانہ غیر جانبدارانہ انتخابات مکمل کر کے ایک خود مختار جمہوری ریاست کی مضبوط بنیادیں رکھ دی یعنی…؎
یاران تیز گام نے منزل کو پا لیا
ہم محو نالاں ء جرس کارواں رہے
آخر کیوں ایک وجہ جو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک برس کے قلیل عرصہ کے بعد قدرت نے ہم سے چھین لیے دنیا بھر کے تاریخ دان اس مفروضے پر دو رائے نہیں ر کھتے کہ اگر پنڈت جواہر لال نہرو 1948ء میں دنیا میں رخصت ہو جاتے اور قائد اعظم محمد علی جناح 1960 ء تک زندہ رہتے تو برصغیر میں بلکہ پور ے عالم میں پاکستان ایک بلند مرتبہ پر فائز ہوتا اور ہندوستان کئی ستانوں میں تقسیم ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہوتا۔ کسی کو کشمیر اور حیدرآباد دکن پر فوجی قبضہ کی جرأت نہ ہوتی۔ نہ کشمیر اور نہ ہی حیدرآباد کی ریاستیں اور نہ ہی مشرقی پاکستان بھارتی جارحیت کا نشانہ بنتے۔لیکن تقدیر خداوندی کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا ۔ قائد اعظم کی وفات کی وجہ سے یقینا اور بلا شبہ نوزائیدہ ریاست پاکستان کو ایک شدید دھچکا لگا اسے انگریزی میں A GREAT SET BACK ہوا۔ قائدکے جانے سے جو خلا پیدا ہوا اسے کوئی دوسرا فرد بدقسمتی سے پورا نہ کر سکا کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے اپنی وفات سے پہلے گرد وپیش کے حالات اور وطن عزیز کو درپیش مختلف اندرونی و بیرونی چیلنجز کا جائزہ لیتے ہوئے بڑے دکھ کیساتھ مسلم لیگ حکومت کے ساتھیوں کی پر عزم اور دلیرانہ صلاحیتوں کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا تھا کہ ’’میری جیب میں اکثر و بیشتر سکے کھوٹے ہیں‘‘ میں اس بارے میں کوئی تصدیق یا تبصرہ نہیں کر سکتا کیونکہ یہ چھوٹا منہ بڑی بات کا معاملہ ہے۔ بہر حال قیام پاکستان سے لیکر جس راستہ پر مسلم لیگی قیادت نے نئی مملکت کو گامزن کیا ایسا لگتا ہے کہ وہ قیادت اپنی منزل کا صحیح تعین نہ کر سکی۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باق نہیں ہے کہ شہید ملت وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کی قیادت کی بھاگ دوڑ مسلم لیگی لیڈران کے ہاتھوں سے تیزی کے ساتھ پھسلتے ہوئے کھوٹے سکوں اور ایسے دیگر لوگوں کے ہاتھوں چلی گئی جنہوں نے قائد اعظم کو تصور پاکستان کو آگے بڑھانے کی بجائے اپنے ذاتی مفادت کو قومی مفادات پر ترجیح دی بلکہ میں اگر یہ کہوں کہ نئی برسراقتدار آنیوالی لیڈر شب نے قائداعظم کی عظیم شخصیت اور ان کے پاکستان کے نئے آئین اور حکومتی ترجیحات کو بھی پس پشت ڈال دیا یہ برسراقتدار حکومتی طبقہ جمہوری قدروں سے اس قدر نا آشنا اور عدلیہ کے قوم کو انصاف مہیا کرنے کے اصولوں سے اس قدرے بے بہرہ اور لاپرواہ تھا کہ قومی اسمبلی کے سپیکر کو عدالت عالیہ میں اسمبلی کی برطرفی کیخلاف پٹیشن فائل کرنے کیلئے ایک عوت کے بھیس میں برقعہ پہن کر چیف جسٹس تک رسائی حاصل کرنا پڑی اور اسی طرح حکومت چلانے کیلئے فوج کے کمانڈر ا نچیف کو باوردی وفاقی کابینہ میں شامل کر کے وزیر دفاع اور آرمی چیف دونوں عہدے اسکے سپرد کر دیئے گئے۔ اندازہ لگایئے اگر قیام پاکستان کے ساتھ ہی قائد اعظم کی خواہش کے مطابق )11 اگست 1947ء کو قائد اعظم کا آئین ساز اسمبلی سے خطاب( آئین بنانے میں تاخیر نہ کی جاتی اور ایسے آئین کے مطابق فوری طور پر وفاقی اور صوبائی سطح پر انتخابات کاانعقاد ہو جاتا تو پاکستان کی تقدیر کچھ اور ہی ہوتی مگر ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے قائداعظم کی وفات کے بعد ان کی ہدایات پر عمل نہ کرنے سے تجاہل عا رفانہ سے کام لیا گیا۔ اسکی سزا اپنی TOO LITTLE TOO LATE کی پالیسی پر چلنے سے ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ پاکستان میں جموری نظام کی جڑیں کھوکھلی رہنا صوبائیت فرقہ واریت انتہا پسندی شدت پسندی اور جرائم میں اضافہ اداروں کی کمزوری اور پارلیمنٹ کی بجائے شخصی حکومت کا رواج فوجی حکومتیں اور خاندانی حکومتوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔فوجی حکومتوں کے دائرہ کار کے دورانیہ میں فیصلہ کرنے کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا گیا ہے وہ تلخ زمینی حقائق سے آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہے۔ اکثر حالت جنگ میں ہونے اور اتنی قربانیاں دینے کے باوجود ہم نے قومی سلامتی اور پاکستان کی خود مختاری اور آزادی کے تحفظ کے بارے میں اپنے رویوں میں حالات کی نزاکت کے باعث تبدیلی پیدا کرنے کے ضروری اقدامات نہ کئے تو ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ…؎
خدا نہ آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہوجس کو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا

ای پیپر دی نیشن