جب سابق وزیراعظم نوازشریف سے ایک صحافی نے چودھری نثار کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے فوراً کہا کہ آپ کو چودھری نثار کے معاملے پر اتنی فکر کیوں ہے؟
نوازشریف کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس معاملے میں سارے پاکستانیوں کو فکر ہے....
میں نے بھی دیکھا ہے کہ جہاں تین چار آدمی اکٹھے ہوتے ہیں نوازشریف کی نااہلی کی بات کرتے ہیں اور چودھری نثار کی بہادری اور بے باکی کی بات کرتے ہیں۔ اگر کسی بات میں لوگ دلچسپی لیتے ہیں تو پھر خود اس سے نتیجہ بھی اخذکر لیتے ہیں۔
آخر اس میں کوئی بات تو ہے تو وہ کیا بات ہے؟ اگر بتایا جائے تو بات کچھ دنوں میں ختم ہو جاتی۔ اگر نہیں بتایا گیا تو بڑی باتیں سنیں گے۔ ہر شخص شغل کے طور پر بھی کوئی نہ کوئی بات کر دیتا ہے۔ اکثر باتیں نوازشریف کے حق میں نہیں ہوتیں کچھ باتیں چودھری نثار کے بارے میں ملی جلی ہوتی ہیں۔
اب کوئی سیاسی سرگرمی تو ہو نہیں رہی ۔کوئی نہ کوئی بات تو لوگوں نے کرنی ہے۔ ہر طرف سیاسی بات ہوتی ہے ہمارے سارے ٹی وی چینل سیاسی مذاکروں اور مباحثوں میں مصروف رہتے ہیں۔ آجکل ٹی وی ساری ساری رات چلتا ہے۔ عام طور پر یہ پروگرام لوگ دیکھتے نہیں مگر ہر ٹی وی چینل یہی کہانی بیان کر رہا ہوتا ہے۔
اس سے نقصان یہ ہوا کہ اب ہر شخص اس حوالے سے کچھ نہ کچھ ذہن میں رکھتا ہے اور بے دھڑک اظہار بھی کردیتا ہے۔ اب تو ہر طرف سیاست ہو رہی ہے زندگی بھی سیاست کا متبادل ہو گئی ہے۔
مرنے کی سیاست ہوتی ہے تو جینے کی بھی سیاست ہوتی ہے۔ سیاست کبھی پازٹیو معنوں میں نہیں لی جاتی۔ ہمیشہ کسی آدمی کے خلاف بات کرنی ہو تو کہتے ہیں کہ وہ بڑا سیاستدان ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سب سے بڑا سیاستدان پاکستان میں وہ ہوتا ہے جو مارشل لاءلگاتا ہے اور سیاسی لوگوں کی نسبت بہت زیادہ اقتدار کے مزے لوٹتا ہے۔ میرے خیال میں صدر جنرل ضیاءالحق پاکستان کے ایک بہت بڑے سیاستدان تھے۔ جن کی قبر پر کھڑے ہو کر نوازشریف نے اعلان کیا تھا کہ میں جنرل ضیاءالحق کے مشن کو آگے بڑھاﺅں گا۔
اصل میں تو اعجاز الحق کو اپنے والد کا مشن آگے بڑھانا چاہئے تھا مگر اسے تو ممبر اسمبلی بننے کے لئے بھی نوازشریف سے ٹکٹ مانگنے کی ضرورت پڑ گئی تھی۔
اعجاز الحق میں کئی خوبیاں ہیں جو اسے لیڈر بنا سکتی ہیں۔ کچھ تو اسے معلوم ہی نہیں۔ کچھ اسے یاد نہیں اور کچھ پر عمل کرنے کے لئے بہت بڑی معرکہ آرائی کی ضرورت ہے۔ اعجاز الحق کا چھوٹا بھائی انوار الحق کہاں چلا گیا ہے؟
کیا وہ ایک دن اچانک کہیں سے باہر نکلے گا اورچھا جائے گا۔ جمہوریت کی رٹ لگاتے سیاستدانوں کو سن سن کر لوگوں کا کچومر نکل گیا ہے۔ باسی ”جمہوری“ حکومت والے کچھ ایسا کر جاتے کہ لوگ انہیں قائداعظم کے ایک سچے عاشق کی طرح یاد کرتے اور پاکستان کا نام دنیا والوں کے لئے ایک حیرت انگیزکشش کی طرح ہوتا۔
ادیبوںکے ایک نمائندے علامہ عبدالستار عاصم نے ایک کتاب بھی اس حوالے سے مرتب کی ہے۔ اس کتاب میں ایک نظم بھی شامل ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کا کچھ نہ کچھ تعلق اس کام کے ساتھ بھی بنتا ہے۔
ارادوں کی محبت کا امیں تو نے کیا ہے
بکھرتی آرزوﺅں کو یقین تو نے کیا ہے
یہ ارض خاک ارض پاک کے رتبے پہ پہنچی
میری اجڑی زمیں کو سرزمیں تو نے کیا ہے
مہاجر کی طرح رہتے تھے جو اپنے گھروں میں
انہیں شہر محمد کا مکیں تو نے کیا ہے
یہاںارض وطن کو ارض جاں تو نے بنایا
بکھرتے خواب کو خواب حسین تو نے کیا ہے
کیا ہمراز تو نے منظروں کو منزلوں سے
زمانے کو انہیں کا ہمنشیں تو نے کیا ہے
٭٭٭٭٭