مہدی حسن روایتی موسیقاروں کے گھر 18 جولائی 1927ء میں انڈیا کے ضلع راجھستان کے ایک گائوں لونا میں پیدا ہوئے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ کلاونت کے موسیقی گھرانے کی سولہویں نسل ہیں۔ مہدی حسن نے کلاسیکی موسیقی کی تعلیم اپنے والد استاد عظیم خان اور چچا اسماعیل خان سے حاصل کی۔ جو کہ خود بھی روایتی دھرپد گلوکار تھے۔ مہدی حسن نے کم عمری میں ہی اپنے فن کا مظاہرہ شروع کر دیا اور یہ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی فنی زندگی کا آغاز اپنے بڑے بھائی کے ساتھ نیپال کے بادشاہ کے دربار میں چھ سال کی عمر میں کیا۔ وہاں انہوں نے راگ ’’بسنت پنچم‘‘ انتہائی خوبی سے پیش کیا اور بادشاہ سے انعام پایا۔ آزادی پاکستان کے بعد 20 سالہ مہدی حسن اپنے والدین کے ساتھ پاکستان ہجرت کر آئے جہاں انکو برے مالی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ شروع شروع میں مہدی حسن نے چیچہ وطنی میں ایک سائیکل کی دکان ’’مغل سائیکل ہائوس‘‘ میں کام کیا۔ بعد میں وہ کار اور ڈیزل مکینک بن گئے۔ مالی حالات برے ہونے کے باوجود مہدی حسن نے اپنی گائیکی کی تربیت کو نہ چھوڑا۔
گلوکاری کا کیرئیر:
1957ء میں مہدی حسن کو ریڈیو پاکستان میں ٹھمری گائیک کی حیثیت سے گانے کا موقع ملا۔ جس کی وجہ سے ان کو موسیقی برادری میں بہت شہرت ملی۔ ان کو اردو شاعری سے بھی لگائو تھا جس کی بنا پر انہوں نے پارٹ ٹائم غزل گانا شروع کر دی۔ مہدی حسن کے مطابق ریڈیو آفیسر زیڈ ۔ اے بخاری، سلیم گیلانی اور رفیق انور نے ان کی غزل گائیکی کو آگے بڑھانے میں بہت مدد کی۔ 1962ء میں ان کا پہلا گانا فلم سسرال میں ’’جس نے میرے دل کو درد دیا‘‘ کے نام سے آیا۔ 1964ء میں فلم فرنگی میں مہدی حسن نے فیض احمد فیض کی غزل ’’گلوں میں رنگ بھرے، بادِ نوبہار چلے‘‘ گائی اس غزل کی وجہ سے مہدی حسن کا بہت نام ہوا اور دوبارہ انہوں نے کبھی مڑ کے پیچھے نہ دیکھا۔ 1980ء کی دہائی میں ایک شدید بیماری کی وجہ سے انہوں نے پلے بیک گائیکی سے علیحدگی اختیار کر لی اور اسی بیماری کی وجہ سے انہیں موسیقی سے بھی دور ہونا پڑا۔ 1977ء میں دہلی کے ایک کنسرٹ میں جب لتا منگیشکر نے مہدی حسن کا حیران کن گانا سُنا تو ان کا یہ کہنا تھا کہ ’’ایسا لگتا ہے جیسے کہ ان کے گلے میں بھگوان بولتے ہیں۔‘‘ اکتوبر 2010ء میں ایچ ۔ ایم ۔ وی نے ’’سرحدیں‘‘ کے نام سے لتا منگیشکر اور مہدی حسن صاحب کا پہلا اور آخری duet گانا ’’تیرا ملنا‘‘ نشر کیا۔ یہ گانا مہدی حسن صاحب کا اپنا کمپوز کیا ہوا ہے جس کو فرحت شہزاد نے لکھا مہدی حسن نے یہ گانا 2009ء میں پاکستان میں ریکارڈ کروایا، بعد میں لتا منگیشکر نے یہ سن کر 2010ء میں اپنا حصہ گا کراس کا duet مکمل کیا۔
وفات: اپنے انتقال سے پہلے مہدی حسن صاحب ایک طویل عرصے تک پھیپھڑوں اور فالج کے مرض میں مبتلا رہے۔ 13 جون 2012ء میں دوپہر کے وقت آغا خان ہسپتال میں انکی موت واقع ہو گئی۔ بارہ سال کی طویل بیماری کے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ 14 جولائی 2012ء میں ’’پاپولس گلوبل‘‘ نے ’’میوزکلر‘‘ کے ساتھ مل کر شہنشاہ غزل مہدی حسن کو پہلا خراجِ تحسین پیش کیا، استاد موہن جان جو کہ مہدی حسن کے گنڈہ بند شاگرد بھی ہیں، انہوں نے اپنے گرو کو خراجِ تحسین پیش کیا۔