حریصانِ اقتدار کا ’’مائنس ون فارمولا‘‘؟

جب سے ملک میں احتساب کے عمل نے آگے بڑھنا شروع کیا ہے۔ ماضی اور حال میں شاخ اقتدار پر چہچہانے والے اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں، اپنے مخصوص ’’محسنوں‘‘ کے بارے میں ان کی نغمہ سرائی مدہم پڑچکی ہے، سیاسی فضا میں سراسیمگی پیدا ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آئین کے مقتدر ترین اداروں نے انگڑائی لینے کا احساس دلا دیا ہے جس کے نتیجے میں ایسے سیاسی عناصر کے خلاف احتسابی عمل کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات روشن ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے سیاسی عناصر، ان کے حاشیہ نشین اور دم چھلا نوکر شاہی کے کارندے بوکھلاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں، جو کسی بھی دور میں ملکی اور قومی وسائل کو لوٹتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عصر حاضر کی ’’احتسابی لہر‘‘ صرف اور صرف انہی سیاسی عناصر کیلئے خوف اور پریشانی کا باعث بن رہی ہے جو ایوان اقتدار کے مکینوں میں شامل رہے اور شامل ہیں۔ یہی وہ عناصر ہیں جن کی طرف سے احتسابی عمل کو ’’انتقامی عمل‘‘ قرار دینے کا واویلا کیا جا رہا ہے۔ ان کے محسنوں اور مربیوں کی طرف سے عقل و خرد سے عاری دلائل کی تشہیر کی جا رہی ہے کہ احتسابی عمل سے ملکی ترقی بری طرح متاثر ہوگی۔ معیشت کو دھچکا لگے گا مگر حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ احتسابی عمل کی زد میں آئے روز آنے والوں کی طرف سے ملکی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کا راستہ ضرور بند ہوا ہے۔ رہا ملکی معیشت اور ترقی کا سوال تو کسی بھی ملک کی ترقی اور معیشت کی بہتری کا اندازہ وہاں کے عوام کی اقتصادی خوشحالی ہی میں مضمر ہوتا ہے جبکہ اس دور میں پاکستان کے عوام مفلسی و تلاشی اور فاقہ کشی کے جس عذاب سے دوچار ہوئے اسکی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پاکستانی عوام کے آبادی کے ایک بڑے حصے کو زندگی کی کوئی آسائش مہیا نہیں۔ انکے بچوں کیلئے تعلیمی ادارے نہیں۔ علاج معالجے کے ہسپتال نہیں، اور جو سرکاری ہسپتال ہیں ان میں ادویات میسر نہیں۔ روزگار کے وسائل نہیں۔ ملک کے کروڑوں خاندانوں کیلئے رہائشی سہولتوں کا فقدان ہے۔ انکے بچوں کو ڈھنگ کا لباس میسر نہیں۔ یہ احتساب کی زد کے خوف سے لرزاں ارباب اقتدار اور ان کے حاشیہ نشین اور حواری کس ترقی اور خوشحالی کی باتوں سے لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں،اب کہا جا رہا ہے کہ سیاستدانوں ، عدلیہ، افواج پاکستان اور پارلیمان کو مل کر کام کرکے ملک کو ترقی دینا چاہئے۔ عقل و خرد اور بصیرت سے عاری ایوان اقتدار میں براجمان عناصر کی طرف سے اس سے زیادہ عوام کی اور کیا توہین ہو سکتی ہے کہ جس فارمولا میں دانستہ طور پر عوام کو درخور اعتنا ہی نہ سمجھا گیا ہو۔ ملکی سیاسی فضا میں بعض سیاسی جماعتوں کے باہمی خلفشار و انتشار کے باعث انکی قیادت کی تبدیلی کے حوالے سے ’’مائنس والے فارمولا‘‘ کی اصطلاح عام ہوئی تھی اور اس کا غلغلہ عصر حاضر کی برسراقتدار جماعت کی قیادت کے حوالے سے بھی سنا گیا تھا مگر ایک مخصوص طبقہ کے اقتدار سے چمٹے رہنے کی خاطر ’’مائنس عوام‘‘ کے فارمولے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ جن عوام کو بے وقعت قرار دینے کی سعی ناکام کی گئی ہے۔ وہی اس ملک کی روح اور جسم و جان ہیں۔ عوام کی امیدوں کو بھر لانے کیلئے عدلیہ اور افواج پاکستان اپنے آئینی اور قانونی فرائض کی بجا آوری میں سر دھڑ کی بازی لگاتے ہیں۔ عوام یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ احتسابی عمل سے لرزاں حریصان اقتدار آئینی اداروں کو عوامی امنگوں کے برعکس خود کو بچانے کیلئے استعمال کرنے کا کیا حق رکھتے ہیں، جس اشرافیہ کے ساتھ آئینی اداروں کو ملانے کا خواب اس فامولا میں نظر آتا ہے اس اشرافیہ نے اس ملک کے بھوکے ننگے، فاقہ کش اور محروم عوام کیلئے کیا ہے؟ یہی اشرافیہ مختلف حوالوں سے غریب عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا موجب بنی۔ آئینی ادارے، عدلیہ اورافواج پاکستان مکمل طور پر اپنی حدود میں سرگرم عمل ہیں۔ پاکستان کے عوام کو ان آئینی اداروں پر ناز ہے۔ ’’مائنس ون فارمولا‘‘ عوام کے دلوں کی دھڑکن ایسے آئینی اداروں کو ’’ملکی ترقی کے سراب زدہ نعرے ‘‘ پر استعمال کرنا نہ صرف ماورائے آئین سوچ کا حصہ ہے بلکہ ملک کے عوام میں تفرقہ بازی کو ہوا دینا ہے۔ اس فارمولہ کی تشہیر اور ارباب اقتدار کے ہمنوائوں اور خوشامدیوں کی طرف سے اس کی حمایت میں نعرے بازی اور بیانات کا سلسلہ عوام میں ہیجان پیدا کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔ ملک کے عوام اور ان کی خواہشات و امنگوں کے برعکس ’’مائنس ون‘‘ فارمولہ کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسی حوالے سے درپردہ ایک ایسا این آر او (مصالحتی آرڈر) عمل میںآ جائے کہ انصاف اور احتساب کے شکنجے میں آنے کے ان سیاسی عناصر کے امکانات ختم ہو جائیں جو عوام کی دیکھتی آنکھوں قومی و ملکی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کے نتیجے میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اقتصادی تفکرات سے آزاد ہو گئے اور اربوں کھربوں کے اثاثوں کے مالک بن گئے۔ خدا نہ کرے کہ ’’مائنس ون‘‘ فارمولہ کے پرچارک اپنے مقصد میں کامیاب ہوں۔ ورنہ یہ ایسا جرم نما اقدام ہو گا جس کی تلافی مشکل ہو گی۔ پھر یہ بھی ارض وطن اور اسکے کروڑوں خاندانوں سے عبارت عورتوں ، مردوں، بچوں اور بوڑھوں کی بدقسمتی ہو گی کہ پاکستان میں عدل و انصاف پر مبنی تابندہ روایات کے احیاء و بقاء کی خواہش دم توڑ دے گی۔ اگر کرسیٔ انصاف نے کروٹ لی ہے اور اسکے نتیجے میں تعلیمی اور طبی سہولتوں کی فراہمی کے حکومتی دعوئوں کا پردہ چاک ہو رہا ہے تو ایوان اقتدار کے مکینوں کی طرف سے اس پر واویلا مچانے کا کیا جواز ہے۔ ارباب اقتدار غریب عوام کے ٹیکسوں سے اپنا علاج معالجہ کرانے کیلئے یا معمول کی چیک اپ کیلئے بیرونی ممالک پرواز کر جائیں اور پھر سرکاری اخراجات پر وڈیو لنک کے ذریعے اپنی تقریروں میں اس قسم کے بے سروپا دعوے کریں کہ پنجاب کے ہسپتالوں میں مریضوں کو ہر طرح سے علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کر دی گئی ہیں تو اس قسم کے دھوکے اور فریب کا پردہ چاک کرنے کیلئے کوئی آئینی ادارہ اپنے فرض کی ادائیگی کی خاطر حرکت میں آ ہی گیا ہے تو اربابِ اقتدار کو ان حالات میں پاکستان کے عوام کی آزادی اور امنگوں کی تکمیل کی راہ میں آئینی اداروں کی بیداری پر اظہار مسرت کرنا چاہئے۔ اس پر کسی بھی مصلحت کے تحت واویلا خود ان کے لئے فائدہ مند نہیں ہو گا ورنہ عوام کو ملکی معاملات اورامور سے الگ تھلک رکھنے کی سعی نہ صرف کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو گی بلکہ یہ شعر بھی ایسی سوچ پر صادق آئے گا۔
یہ کیا قیامت ہے باغبانو کہ جن کی خاطر بہار آئی
وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمہاری آنکھوں میں خار بن کر

ای پیپر دی نیشن