جانوروں اور درختوں کی کئی اقسام ہیں۔کئی اقسام کے گھوڑے اور اُونٹ ہیں۔گلاب کے پھول کی بھی کئی اقسام ہیں۔اسی طرح انسان ایک ہے مگر آب و ہوا اور غذا کے فرق کی بدولت کوئی کالا ہے اور کوئی گورا ہے۔بعض علاقوں کے لوگ دلیر و جنگجو ہیں اور بعض علاقوں کے لوگ بزدل یا صلح جو ہیں۔ بعض خطوں کے لوگ ذہین و فطین ہیں اور بعض علاقوں کے لوگ غبی و کندذہن ہیں۔ اسی طرح سیاست کی بھی کئی اقسام ہیں۔کہیں بادشاہت ہے تو کہیں مغربی جمہوریت۔کہیں فوجی حکومت ہے تو کہیں مذہبی حکومت۔کسی ملک میں یک جماعتی کمیونسٹ حکومت ہے تو کہیں کثیر الجماعتی جاگیردارانہ حکومت۔پاکستان میں گذشتہ سترسال میں دو طرح کی سیاست رہی ہے۔ جمہوری سیاست اور عسکری سیاست، پاکستانیوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان،جنرل یحییٰ ،جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے مارشل لاء بھی دیکھے اور سرمایہ دارانہ جمہوریت بھی دیکھی۔ لیکن زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ اہل زرہی اہل زور بنے اور اہل زور ہی اہل زر بنے۔ عملی طور پر سیاست کی تین اقسام ہیں۔ نظریاتی ،مصالحاتی اور مفاداتی۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی سیاست میں پہلا نظریاتی سیاست دان تھا۔اس نے اسلام ہمارا دین ،جمہوریت ہماری سیاست ، سوشلزم ہماری معشیت اور طاقت کا سرچشمہ عوام کا نعرہ دیا۔ جوا ن کا ’’نظریہ ‘‘تھا۔روٹی ،کپڑا ،مکان ،تعلیم وصحت کو انسان کی بنیادی ضروریات قرار دیا۔ ان ضروریات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری قرار دی۔بھٹو خود کو جمہوریت کا علم بردار کہتا تھا اور وہ’’مسلم سوشلسٹ‘‘ہونے کا بھی دعویدار تھا۔ اس کے دور میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی سیاست نظریاتی سیاست بن گئی۔جاگیردار،سرمایہ دار،مولوی ،نوکر شاہی اور تمام مراعات یافتہ طبقات بھٹو کے مخالف ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے۔یہ دائیں بازو والے کہلواتے تھے جبکہ کسان ،مزدور،غریب ، شاعر، ادیب اور دانشور بھٹو کے حامی تھے اور یہ بائیں بازو والے کہلواتے تھے۔بھٹو کے بعد نظریاتی سیاست کا خاتمہ ہوگیا ۔مصالحاتی سیاست مبنی پر مصلحت ہوتی ہے۔چند پارٹیاں حکومت سازی کے لئے مشترکہ حکومت یعنی کولیشن حکومت بناتی ہیں جو ان کی مجبوری ہوتی ہے۔اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ پارلیمانی نظام کی یہ ایک کمزوری ہے ۔ اس نظام میں رساکشی اور کھینچا تانی سیاسی مجبوری ہے۔اسمبلیوں میں حکومتیں بنانا اور گرانا پارلیمانی نظام کی خباثت ہے۔مفاداتی سیاست کی بُنیاد وہ لوگ ہیں جن کی اسمبلیوں میں نشستیں آبائی اور موروثی ہیں اور جنہیں انگریزی میں (Electables)کہتے ہیں۔یہ لوگ ’’اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے‘‘کی صورت بلیک میلرز ہوتے ہیں۔اس وقت پاکستان میں ’’مفاداتی سیاست‘‘ زوروں پر ہے۔نظریاتی سیاست صرف اور صرف صاحبان علم کا ورثہ ہے جو پاکستان میں ناپید ہے کیونکہ یہاں اہل زر کی حکومت ہے دریادداشت پر دستک دیتا ہوں تو دھندلے دھندلے نقوش اُبھرتے ہیں۔حال میں منتخب ہونے والے پاکستان مسلم لیگ(ن)کے سینیٹر کیپٹن خالد شاہین بٹ کا مین ہسٹین نیویارک میں کشمیر ریسٹورنٹ چشم تصور میں جلوہ گر ہوتا ہے۔غالباً 2006ء کی بات ہے شہباز شریف لندن سے تشریف لائے تھے۔کشمیر ریسٹورنٹ میں میری ان سے ملاقات ہوتی ہے۔ہم تینوں رات کا کھانا اکھٹے کھاتے ہیں پاکستان کی سیاست زیر بحث ہے۔انہیں میرے پاکستان مسلم لیگ(ق)کی مرکزی مجلس عامہ کا رکن ہونے اور پھر جماعت سے علیحدہ ہونے پر تجسس ہوا اور سبب ’’اعلان بغاوت‘‘پوچھا۔میں نے عرض کیا کہ مسلم لیگ ہائوس اسلام آباد میں مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس تھا جس کی صدارت وزیراعظم میر ظفراللہ خان جمالی کررہے تھے۔ تمام مرکزی وزراء بھی شریک اجلاس تھے۔مجھ سے قبل دوتین وزراء اور سینیٹرز نے خطاب کیا اور صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کی تعریفوں کے وہ پل باندھے کہ ’’پل صراط‘‘بھی لرز گیا ہوگا۔ان ضمیر فروشوں اور جمہوریت کش لوگوں نے جنرل پرویز مشرف کو دس بار باوردی صدر بنانے کا اعلان کیا۔اس دن مقررین کی فہرست میں میرا بھی نام تھا۔میں نے دوران تقریر کہا’’جب مجھے چند احباب نے اس جماعت میں شمولیت کی دعوت دی تو یہ کہا گیا کہ جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء سے جان چھڑانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس نئی سیاسی جماعت میں شامل ہوکر عوامی حکومت کی بنیاد رکھیں تاکہ جنرل پرویز مشرف وردی اُتار دیں اور مارشل لاء کا خاتمہ ہو۔اس جمہوری عمل کا خواب دیکھنے والے صدر جماعت میاں اظہر ،گوہر ایوب اور سید فخر امام تھے جن کی مشاورت سے میں نے س جماعت میں شمولیت اختیار کی لیکن آٹھ ماہ ہوگئے ہیں مسلم لیگ (ق)مسند حکومت پر براجمان ہے اور جنرل مشرف نے وردی نہیں اتاری۔ملک میں مارشل لاء ہے۔یہ کیسی حکومت ہے۔جو’’جمہوری‘‘بھی ہے اور ’’مارشل لائی’’بھی ہے۔جنرل پرویز مشرف وردی اتاریں اور وعدہ پورا کریں۔بہر حال اس تقریر کے بعد وزیراعظم جمالی صاحب نے ناراضی کا اظہار کیا۔من نے نہ صرف جمہوریت کی خاطر حکومتی جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی بلکہ پاکستان کو ہی خیر آباد کہہ دیا اور امریکہ آگیا اور جب تک پرویز مشرف صدر رہا میں نے خود ساختہ جلا وطنی کا پانچ سالہ چلہ کاٹا ۔ افسوس صد افسوس جنرل مشرف کی ناک کے بال چند مرد اور خواتین آج مسلم لیگ(ن)میں وزیر ومشیر ہیں۔حضرت عیٰسی ؑ اپنے دور خلافت میں حکام کو نصیحت کرتے ہیں کہ خواص کی محفلوں سے اجتناب برتو اور عوام سے رابطہ رکھو کیونکہ مشکل گھڑی میں خواص بے وفائی اور عوام وفا کرتے ہیں۔ پاکستان کے سیاست دانوں کا تعلق طبقہ اشرافیہ سے ہے۔یہ لوگ جاگیردار اور سرمایہ دار ہیں۔بقول شیخ سعدی ؒ ’’کبوتر بہ کبوتر باز بہ باز‘‘کبوتر کبوتروں اور باز بازوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں۔پاکستان میں ’’مفاداتی سیاست‘‘کی بدولت آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔یہ لوگ غریب عوام کی غربت اور جہالت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور موروثی سیاست ہے۔اہل زور وزر کے علاوہ پاکستان میں سول اور ملٹری بیوروکریسی بھی جمہوریت کی راہ میں ایک سنگین رکاوٹ ہے ۔حکومت کے ان ملازمین کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ عوام محکوم ہیں اور تم حاکم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حکومت ملازمین عوام سے دور اور عوامی مسائل سے بے نیاز رہتے ہیں۔پاکستانی عوام کو بعض حکومتی اداروں سے بھی سخت شکایت ہے کہ وہ خفیہ انداز میں سیاست میں مداخلت کرتے ہیںا ور کسی سول حکومت کو چلنے نہیں دیتے۔یہ شکوہ اور شکایت کسی حدتک بجا ہے۔ان خفیہ اداروں کا ’’بیانیہ‘‘یہ ہے کہ وہ’’حکومت‘‘کے نہیں’’ریاست‘‘کے وفادار ہیں اور جس حاکم یاسیاست دان کو ملکی و قومی مفاد کے خلاف کام کرتا پائیں گے قومی مفاد میں اس کو نکیل ڈالیں گے۔یہ بھی درست بیانیہ ہے ملک ہے تو سیاست ہے۔سیاست قومی مفاد کے تحت ہونی چاہیے اس پر کسی محب وطن کو اعتراض نہیں ہے۔لیکن قوم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ جب مارشل لاء لگتا ہے تو عدالتیں اس کو جائز قرار دے دیتی ہیں اور ’’نظریہ ضرورت‘‘بیانیہ بن جاتا ہے اور ’’پی سی او‘‘کے تحت جج صاحبان حلف بھی اٹھا لیتے ہیں۔کیا یہ نظام عدل کی نفی اور توہین نہیں ہے۔علاوہ ازیں جب جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف قومی مفادات کو امریکہ کی دہلیز پر نچھاور کرتے ہیں تو یہ قومی ادارے کیوں خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں مارشل لاء کی تقویت کے لئے لوگوں کو کوڑے مارے جاتے ہیں اور سال ہا سال تک انہیں جیلوں میں بند کردیا جاتا ہے آج افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کہتے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیںا ور فوج آئین و جمہوریت کی نگہدار ہے تو ہر پاکستانی ان کے لئے رطب اللسان ہے اور دعا گو ہے۔اصل میں عوام جمہوریت اور معاشی انصاف کے طلب گار ہیں۔