ہر شہر اور علاقے کی کوئی نہ کوئی خاص پہچان ہوتی ہے۔ معیشت تو ہر جا سانس کی طرح ضروری ہوتی ہے مگر علم و ادب اور ثقافت ہی صحیح معنوں میں شہروں کو معروف و مقبول کرتے ہیں۔ ’’پاک ٹی ہاؤس‘‘ لاہور شہر کا اعزاز ہے۔ اس چھوٹے سے چائے خانے کا قیام 1939ء کے لگ بھگ دو سکھ بھائیوں کی کوششوں سے عمل میں آیا۔ اس وقت کسے علم تھا کہ ایک دن یہ پاکستان کا عظیم ادارہ بن جائے گا اور ادبی تاریخ میں سنہری حروف میں رقم ہو گا۔ اس وقت اس کا نام ’’انڈیا ٹی ہاؤس‘‘ رکھا گیا جو پاکستان بننے کے بعد ’’پاک ٹی ہاؤس‘‘ بن گیا۔ پاک ٹی ہاؤس نے ناصر کاظمی، عارف عبدالمتین، حمید اختر ، اے حمید، سعادت حسن منٹو ، عدیم ہاشمی، افتخار نسیم، انیس ناگی ، یونس ادیب ، صادقین، ظہیر کاشمیری ، اسرار زیدی اور احمد ندیم قاسمی جیسی عظیم ہستیوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ مکالمے کے ذریعے اپنے فن کو نکھاریں اور اپنے جونیئرز کی تربیت کریں۔ اس طرح جہاں یہ ادیبوں اور شاعروں کیلئے مل بیٹھنے کا وسیلہ تھا وہیں ادب کی تدریس کا ذریعہ بھی تھا۔ اسکے غیر فعال ہونے پر سابقہ حکومت نے دانشوروں ، ادیبوں اور صحافیوں نے ملک گیر احتجاج کیا جس کے نتیجے میں سابقہ حکومت کو اسے بحال کرنا پڑا اور اس کی رونقیں پھر سے لوٹ آئیں۔ علم و ادب سے متعلق لوگوں اور طالب علموں نے اس کا زبردست استقبال کیا۔ ایک طرح سے یہ دانشوروں اور ادیبوں کی جیت تھی اور علم و ادب کی سرفرازی کا معاملہ بھی۔ اب وہاں ہر روز شعر و سخن اور بحث و مباحثے کی محفلیں ہوتی ہیں۔ حلقہ اربابِ ذوق اور پاک ٹی ہائوس ایک دوسرے کی پہچان ہیں۔ پاک ٹی ہاؤس لاہور کی شاندار روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈپٹی کمشنر ملتان زاہد سلیم گوندل نے اپنی تعیناتی کے دوران ’’ملتان ٹی ہاؤس‘‘ کا آغاز کیا جس سے اولیاء کے شہر میں شاعروں اور ادیبوں کو ادبی سرگرمیوں کیلئے خوبصورت مقام میسر آیا۔ اب پنجاب میں تیسرا اعزاز ضلع سیالکوٹ کو ادب نواز اور ادب شناس ڈپٹی کمشنر سید بلال حیدر کے ذریعے نصیب ہوا ہے۔ شاعری کے عالمی دن کے موقع پر یعنی 21 مارچ کی چمکیلی دوپہر سیالکوٹ کی ضلعی انتظامیہ کے محکمہ انفارمیشن کے زیر اہتمام انوار کلب میں ’’سیالکوٹ ٹی ہاؤس‘‘ کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ ہال کی سجاوٹ دیدنی تھی۔ رنگ برنگی روشنیاں اور گلاب کے پھول دلکش سماں پیش کر رہے تھے۔ نامور کالم نگار ہارون الرشید، منفرد لہجے کے شاعر منصور آفاق، خوبصورت شاعرہ اور ڈاکٹر صغرا صدف اور جدید لہجے کے ہر دلعزیز شاعر فرحت عباس شاہ اس تقریب کے خاص مہمان تھے۔ مہمانانِ گرامی نے جب افتتاحی ربن کاٹنے کے بعد تختی کی نقاب کشائی کی تو ماحول خوشگوار احساس میں ڈھل گیا۔ دیر تک تالیوں کی آوازیں جشن کا سماں پیدا کرتی رہیں۔ کلب ہال میں افتتاحی تقریب بھی ایک ناقابل فراموش کہانی تھی جس میں تاریخی حیثیت کے حامل مرے کالج کے مستعد طلباء سمیت شہر کی معروف علمی و ادبی شخصیات موجود تھیں۔ پروفیسر محمود الحسن شاکر نائب صدر سیالکوٹ ٹی ہاؤس اور ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر شہزاد احمد ورک کے اعلیٰ انتظامات ہر طرف عیاں تھے۔ نظامت کے فرائض جنرل سیکرٹری سیالکوٹ ٹی ہاؤس اور عمدہ شاعر محمد ایوب صابر نے بہت دلنشیں انداز میں نبھائے۔ ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ سید بلال حیدر نے خطبہ استقبالیہ میں سیالکوٹ میں پاک ٹی ہائوس کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے 21 مارچ کو سیالکوٹ کی تاریخ کا عظیم دن قرار دیا کیوں کہ یہ ٹی ہائوس شاعری کے عالمی دن کے موقع پر حکیم الامت علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کو خراجِ عقیدت اور نئے شعراء کو خوش آمدید کہنے کا آغاز ہے۔ انہوں نے عالمی شہرت کی حامل شخصیات کا سیالکوٹ میں تشریف لانے پر شکریہ ادا کیا اور اہلِ قلم کو آزادانہ ماحول میں اپنا تخلیقی کام کرنے کیلئے ہر سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ شنید ہے کہ سیالکوٹ ٹی ہاؤس میں ہفتہ وار اجلاس کے علاوہ ، ماہانہ ، سہ ماہی اور سالانہ مشاعرے بھی منعقد ہوں گے جن میں دوسرے شہروں سے نامور شعراء کو مدعو کیا جائے گا اور اخراجات ضلعی حکومت ادا کرے گی۔ یہ اعلان اہلِ سیالکوٹ کے لئے یقینا خوشی کی نوید کی طرح تھا۔ فرحت عباس شاہ، ڈاکٹر صغرا صدف، منصور آفاق اور ہارون الرشید نے اس عظیم الشان اور مثبت عمل کی بھرپور پذیرائی کی اور ڈی سی سیالکوٹ کی کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ ان سب کا کہنا تھا کہ یہ ٹی ہائوس بھی ایک دن تاریخی حیثیت کا حامل بنے گا اور ادب پروری میں لاہور کی طرح مثال قائم کرے گا۔ خدا کرے یہ ٹی ہائوس علم و ادب کا گہوارہ بنے اور اس شہر میں علم سے محبت اور ادب کا فیض جاری رہے۔ علم و ادب سے رشتہ منسلک کر کے ہی ہم ایک باوقار اور باشعور قوم بن سکتے ہیں۔ آخر میں اقبال کے خوبصورت شعر ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ سید بلال حیدر کے نام:
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت