شیوۂ حکمرانی

دن بدلتے رہتے ہیں‘ کبھی کسی کا زوال تو کبھی کسی کا عروج۔ اور یہ نظام کائنات ہے۔ میاں صاحبان‘ زرداریوں اور دوسروں کا خیر کچھ گناہ ہوگا‘ یہاں تو محض بادشاہ کا بھائی اور بادشاہ کا بیٹا ہونے کے جرم میں تہ تیغ کردیا جاتا ہے۔ مگر وقت کے حاکموں کو ایک بات یاد رکھنا چاہیے کہ مخالفین کے ساتھ جو جی چاہے کرو کہ آپ اس پوزیشن میں ہیں‘ مگر ایک جرم ہرگز نہ کیجئے‘ انکی عزت نفس کو نہ جھجوڑیئے کہ روح ہر لگے زخم مندمل نہیں ہوا کرتے۔ ان کا ٹھٹھانہ اڑائیے‘ ان پر پھبتیاں نہ کسیئے اور ان پر جگتیں نہ ماریئے کہ یہ حکمرانوں کا شیوہ نہیں۔ عہد زوال کے مغل شہزادے نے جہالت کی مستی میں فقیر بے نوا کو پتھر مارا تو اس نے سبنھال کر رکھ لیا اور جب غدر ہو گیا اور شہزادے کو کنویں میں قید کر دیا گیا‘ تو فقیر نے وہی پتھر اسے دے مارا۔ قیدی دکھی ہوا‘ معتوب پر مزید عتاب کیوں؟ فقیر بولا‘ اسے تو میں نے اس دن کیلئے سنبھال رکھا تھا۔

ریاض احمد سید…… سفارت نامہ

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...