ابیّ بن خلف کا عبرتناک انجام

Mar 31, 2019

رضا الدین صدیقی

ابیّ بن خلف دنیا کے بدترین انسانوں سے ایک ہے اور اُن تیرہ بخت لوگوں میں سے ہے جو جہنم کے شدید ترین عذاب میں مبتلاہوں گے۔یہ قریش کے نمایاں افراد میں سے ایک تھا جنگ بدر میں قیدی بنا ،لیکن اسے رہاکردیا گیا ۔اس احسان کا بدلہ اس نے یہ دیاکہ قسم اُٹھائی کہ میں اپنے قیمتی گھوڑے’’ العُود ‘‘کو روزانہ اتنے سیر مکئی کا دانہ کھلایا کروں گا اور پھر اس پر سوار ہوکر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کو قتل کردوں گا۔اس کی یہ بڑجب حضور کے گوشِ انور تک پہنچی تو آپ نے فرمایا’’وہ نہیں ، بلکہ میں اسے موت کے گھاٹ اتاروں گا،انشاء اللہ‘‘ ۔ اُحد کے دن وہ اپنے اسی گھوڑے پر سوار ہوکر شریک ہوا،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا ’’خیال رکھنا ،مباداکہ ابّی بن خلف مجھ پر عقب سے حملہ آور ہو،تم اسے دیکھو تو مجھے اطلاع دے دینا ‘‘۔یہ ارشاد اس لیے ہوا کہ حضور لڑائی کے دوران پیچھے مڑکر نہیں دیکھا کرتے تھے،جب حضور اُحد کی گھاٹی پر تھے تو اچانک یہ آدھمکا۔اس نے سر پر خود اورچہرے پر آہنی نقاب ڈالا ہوا تھا وہ گھوڑے کو ایڑ لگاتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا ،وہ کہہ رہا تھا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کہاں ہیں؟اگروہ بچ گئے میرا بچنا محال ہے ،اس کے عزائم بھانپ کر بہت سے مجاہدین نے اس کا راستہ روکنا چاہا،لیکن حضور علیہ السلام نے بلند آواز سے کہا’’اسے چھوڑدو،اس کا راستہ خالی کردو۔‘‘ پھر حضور نے ابّی سے کہا ’’اے کذاب! اب بھاگ کر کہاں جاتے ہو؟آپ نے حارث بن صِمہ کے ہاتھ سے چھوٹا نیزہ پکڑ لیا اورایک ایسے عالمِ جلال میں بڑے جوش سے جھرجھری لی کہ صحابہ کرام بھی اس کی تاب نہ لاسکے اور دیکھنے والوں کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا ۔ آپ نے اکیلے اس کے سامنے کھڑے ہوکر نیزے سے اس کی گردن کے اس حصے پر ضرب لگائی جو خود اورزرہ کے درمیان ننگا رہ گیا تھا،پھر کیا تھا اُس کے توحواس باختہ ہوگئے، سر چکراگیا گھوڑے کی پشت سے غش کھا کر لڑھکنے لگا،اور زخمی بیل کی طرح ڈکاڑنا شروع کردیا، اس ضرب سے بظاہر معمولی خراش آئی تھی لیکن بظاہر معمولی چوٹ نے اس کے سینے کی پسلیاں اورجسم کی ہڈیاں کڑکڑادی تھیں اور سر پیٹتا ،چیختاچلاتا اپنی قوم کے پاس پہنچا ۔بخدا مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے قتل کردیا ،لوگوں نے معمولی خراش دیکھی تو کہنے لگے ،حد ہوگئی تمہاری بزدلی کی بھی،کوئی گہرا زخم تو آیا نہیں اورتم نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا ہے ۔اس قسم کی خراش توہم میں سے کسی کی آنکھ پر بھی لگ جاتی تو قطعاً نقصان دہ نہ ہوتی۔ وہ کہنے لگا ،لات اورعزٰی کی قسم ! جو چوٹ مجھے لگی ہے وہ چوٹ اگر ربیعہ اورمضر قبائل کو بھی لگتی تو سارے کے سارے ہلاک ہوجاتے ،اوروہ بالکل درست کہہ رہا تھا۔ اُن غفلت شعاروں کو کیا خبر کہ نبی کی قوت کیا ہوتی ہے اوراس کی لگائی ہوئی ضرب کا اثر کیا ہوتا ہے اورکہاں تک ہوتا ہے۔وہ واپسی کے سارے سفر میں اسی اذیت میں مبتلا رہا اورمکہ کے قریب سرف کے مقام پر پہنچ کر ہلاک ہوگیا اور جہنم کے بدترین اورشدید ترین عذاب کا ایندھن بن گیا۔

مزیدخبریں