ان دنوں ہمارا پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ایک نامعلوم جرثومے پر حاشیہ آرائی، قیافوں اور قیاس آرائیوں سے بھرا پڑا ہے مگر میرا تجسّس کچھ اور طرح کا ہے۔ ربِّ کائنات نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے جس کے لئے پروردگار نے انسان کو سوچ بچار ، تجسّس اور نفع نقصان کو پہچاننے کی صلاحیت سے سرفراز کیا۔ اسے اپنا رزق خود تلاش کرنے کے راستے دکھائے۔ اس کے لئے نیکی اور بدی کے تصورات اجاگر کئے اور اس بنیاد پر جزا اور سزا کے تصور سے بھی اپنی اس مخلوق کو بخوبی آگاہ کر دیا۔ بطور مسلمان آخرت پر ہمارا ایمان و عقیدہ ہے اور’’ کّل نفسِ ذائقۃ الموت‘‘ ایک اٹل حقیقت ہے جس کے لئے ہر ذی روح کی موت کا وقت بھی متعین ہے۔ ’’اس طرح موت ہی زندگی کی محافظ ہوتی ہے جو کسی فرد کی موت کے متعینہ وقت تک اسے مرنے نہیں دیتی۔ سو اس نظام کائنات کی ہر حقیقت و حکمت خالق کائنات کے دست قدرت میں ہے۔ اگر خالقِ کائنات نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اسے کائنات کے دیگر عوامل اور دوسری مخلوقات پر فضیلت دی ہے اور شرف انسانیت کو انسانی معاشرے کی بنیاد بنایا ہے تو آج میرا تجسّس یہی ہے کہ کرونا نام کے حشرات الارض سے بھی کہیں نیچے کے نامعلوم جرثومے کے محض خوف سے اشرف المخلوقات کو آج قہر مزلت میں کیوں دھکیل دیا گیا ہے کہ آج اس وائرس کی زدمیں آنے کے خوف نے سارے انسانی رشتے اور جذبے ہی یکلخت مٹا دئیے ہیں۔ شرفِ انسانیت کے وصف سے ہی پلک جھپکتے میں محروم کر دیا ہے۔ لازمی مذہبی عبادات کے تقاضوں سے ہی پرے ہٹا دیا ہے۔ آج کرونا وائرس کی زدمیں آنے والا ایک انسان دوسرے انسان کے لئے نفرت و حقارت کی علامت بن گیا ہے۔ اسکی زندگی انتہائی بے بسی والی تنہائی میں گزرتی ہے۔ دوسرے انسان اور مسیحا تک اسکے قریب جانے سے خوف کھاتے ہیں۔ کسی کا دل اس کے لئے قربت والے جذبات پر نہیں پسیجتا اور کسی کو اس کے احسانات اور قریبی رشتہ داری کا بھی پاس نہیں رہتا اور اسی بے بسی کی حالت میں جب اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرتی ہے تو اس کی اشرف المخلوق والی حیثیت اور نام نسب کچھ بھی اس کے کام نہیں آتا۔ بس وہ کرونا زدہ جسم کا لوتھڑا بن جاتا ہے جس کی نہ میت کو غسل دینے کے لئے کوئی انسانی جذبہ جوش مارتا ہے نہ اس کی میت کو کندھا دینے کے لئے کوئی شرف انسانیت کے ناطے آگے بڑھتا ہے ، نہ اس کی نماز جنازہ میں شرکت کارِ ثواب بنتی ہے اور نہ اسے مذہبی رسومات کے مطابق ڈھنگ سے دفن کرنے کا کوئی اہتما م ہو پاتا ہے۔ ایسے بے بس و لاچار اور راندۂ درگاہ انسان کے لئے بہادر شاہ ظفر کی اس حسرت کا ہی اظہار ہو سکتا ہے کہ …؎
ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کہیںجنازہ اٹھتا ، نہ کوئی مزار ہوتا
بے شک ہر انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور اس ناطے سے کوئی انسان موت سے راہِ فرار اختیار نہیںکر سکتا۔ موت کو گلے لگاناہی ہماری آخرت کی تیاریوںکا لازمی حصہ ہے مگر ایسی موت کس کی خواہش ہو سکتی ہے کہ دینی اور دنیاوی حوالے سے اس کے عقیدت مندبھی اسکے لئے غم کے جذبات سے لبریز نہ ہوپائیں اور اس کے لئے خس کم جہاں پاک والی کیفیت بن جائے۔
یہی وہ خوف ہے جو اشرف المخلوقات کے لئے مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق کرونا وائرس کے ڈراوے میں مرض الموت میںمبتلاکئے جا رہا ہے۔ بس یہی میرا تجسّس ہے کہ اشرف المخلوقات کی ایسی بے توقیری کیا خالقِ کائنات کی منشاء ہو سکتی ہے۔ آج کرونا کے خوف نے ہم سے فرضی اور نفلی عبادات کے سارے لازمی تقاضے چھین لئے ہیں، حرمین شریفین ، مساجد اور دوسری عبادت گاہوں سے پرے دھکیل دیا ہے اور گھروں کے اندر بھی ایک دوسرے سے ہاتھ تک ملانے کی اپنائیت سے محروم کر دیا ہے تو خدانہ کرے کل کو کوئی دوسرا خوف ہمیں نماز، روزہ ، حج کی فضیلت سے ہی محروم نہ کر دے۔
بے شک احتیاط لازم ہے اور آج کرونا وائرس سے بچائو کے لئے سارا زور اسی پر ہے مگر بھلے لوگو! کچھ اور تجسّس بھی کر لو۔ انسانی معاشرے کو ان دیکھے خوف میں مبتلا کرنے کی اس شورا شوری میں احتیاطی اقدامات کے سوا کوئی دوسری سوچ پنپنے نہ دینا بھی تو کوئی تھیوری ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر تو حکمت و دانش کے بہت سے موتی بکھیرے جارہے ہیں اور طبی مشوروں کی تو کوئی کمی ہی نہیںرہ گئی۔ بے شک ان مشوروں پر کان نہ دھرئیے مگر تین معتبر حضرات کی سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز کا ذرا خوف کے اثرات سے باہر نکل کرجائزہ لے لیجئے۔ ہو سکتا ہے انسانی معاشرے کو ان دیکھے خوف میں مبتلا کرنے کی کسی اصل کہانی کا کوئی سرا آپ کے ہاتھ آ جائے۔ ان میں ایک ہمارے سینئر اور فی الواقع معتبر سابق سفارتکار عبداللہ حسین ہارون ہیں اور دوسرے بھارت کے دو جیّد ڈاکٹر امر آزاد اور بسوا روپ رائے چودھری ہیںجنہوں نے اپنے سالہا سال کے تجربات اور تحقیق و تجسس کی بنیادپر کرونا وائرس کو کسی قدرتی آفت کے بجائے انسانوں کو خوف میںمبتلا کر کے دوسروں پر اپنی دھاک بٹھانے اور پھر اپنا سودا بیچنے کے لئے کرونا وائرس لیبارٹریوں میں تیار کر کے مخصوص دنیا میں پھیلانا ثابت کیا ہے۔ عبداللہ حسین ہارون نے تو باقاعدہ ریکارڈکے ساتھ اس مبینہ سازش کی جزیات تک بے نقاب کر دی ہیں اور آپ اسے حسن اتفاق کہیں یا اپنی اپنی تحقیق کا نچوڑ۔ یہ تینوںحضرات امریکہ اور اسرائیل کے اس وائرس کے موجد ہونے پر متفق ہیں جس کے لئے ان کی پیش کردہ دلیلیں اور حقائق بے معنی بھی نظر نہیں آتے۔ ان کے دلائل کے جواب میں کئی حضرات کے یہ دلائل بھی سامنے آئے ہیں کہ اگر یہ امریکہ اور اسرائیل ہی کی ساختہ سازش ہوتی تو امریکہ اور یورپی ممالک خود اس وائرس کی لپیٹ میں کیوں آتے اور امریکہ اپنے ہی لوگوں کو مروا کر کیوں اپنی دھاک بٹھاتا۔
ارے صاحب۔ یہ امریکہ ہی تو ہے جو اپنے مقاصدو مفادات کی خاطر اپنے پیارے لوگوں کی بلی چڑھانے سے بھی گریز نہیںکرتا۔ اگست 1988ء میں جنرل ضیاء الحق کے ائر کریش کی مثال ہمارے سامنے ہے جس میں امریکہ نے پاکستان میں اپنے سفیررافیل کی بھی قربانی دے دی تھی۔ بہرحال یہ بھی ایک تھیوری ہے جو غور و فکر کی متقاضی ہے۔ میری تو آج رب کائنات سے یہی دعا ہے کہ وہ ہمیں کرونا وائرس کے خوف میں ڈوبی بے بسی اور لاچارگی کی موت سے بچائے۔ ہائے کیا خوف ہے کہ مجھے اپنے اس شعر نے بھی خوف سے دہلا دیاہے کہ…؎
خوف کے یوں بیج ہم بونے لگے
کوئی دستک دے تو گھر رونے لگے
٭…٭…٭
کرونا کاخوف اورمیرا تجسّس
Mar 31, 2020