پنجاب اور اسکے قابل ِ ذکر مدارالمہام!

Mar 31, 2020

شوکت علی شاہ

پنجاب کا پہلا قابل ذکر وزیر اعلیٰ ممتاز دولتانہ تھا۔ ضلع وہاڑی کے قصبے لُڈن کا بہت بڑا زمیندار جسے پڑھنے کا بہت شوق تھا، اس نے اپنے گھر میں لائبریری بنا رکھی تھی۔ عین ممکن ہے کہ اس نے کافی کتابیں پڑھی ہوں لیکن ایک کتاب کو یقیناً حرز جاں بنا رکھا تھا۔ وہ بدنام زمانہ اطالوی مصنف میکائولی کی ’’پرنس‘‘ تھی۔ میکائولی نے حکمرانوں کو اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے اور طوالت دینے کے گُر بتائے ہیں۔ دھوکہ دہی، فراڈ ، ظلم اور زیادتی اس کے جزولاینفک ہیں۔ دولتانہ نے بھی ہر حربہ آزمایا۔ لیاقت علی خان کے قتل کا الزام بھی اس پر لگایا گیا۔ وجہ ؟ پنجاب کے وڈیرے ایک مہاجر کو وزیراعظم ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ خوش قسمتی سے اس وقت آئی ۔ جی پولیس خان قربان علی خان تھے جن کو وزیر اعلیٰ انکل کہتا تھا۔ ایک سازشی تھیوری یہ کبھی سامنے لائی گئی کہ لیاقت باغ میں جو سانحہ ہوا وہ چچا بھتیجے کے الحاق کا شاخسانہ تھا چونکہ وطن عزیز میں کبھی کوئی سازش بے نقاب نہیں ہوئی ، اس لیے اتنے بڑے گٹھ جوڑ کا بھی کوئی سراغ نہ مل سکا۔ ان دنوں پولیس اتنی طاقتور تھی کہ چیف سیکرٹری آئی ۔ جی کے دفتر میں باقاعدہ حاضری دیتا تھا۔ قدرت اللہ شہاب صاحب نے اپنی سوانح عمری میں ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ یہ اس وقت ڈی ۔ سی جھنگ تھے جب خان صاحب نے انہیں اپنے دفتر بُلا کر کسی بات پر جھاڑ پلائی تو چیف سیکرٹری منقار زیر پَر رہے… دولتانہ بنیادی طور پر زیرک انسان تھا۔ جب اس کی پارٹی کو بھٹو کے ہاتھوں شکست فاش ہوئی تو وہ سمجھ گیا کہ کھیل ختم ہو چکا ہے۔ جب بعد میں بھٹو نے اسے برطانیہ کی سفارت کی پیش کش کی تو اس نے آفر قبول کرنے میں یہ عافیت جانی۔ بھٹو شاطر سیاست دان تھا۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے معانی اور مفاہیم سمجھتا تھا۔ جب بانس ہی نہ رہا تو بانسری نے کہا سے بجنا تھا۔ یہی نسخہ نواب مظفر علی قزلباش پر آزمایا گیا۔ وہ بھی ون یونٹ میں وزیراعلیٰ رہے۔ انہیں بطور سفیر فرانس بھیج دیا گیا۔ شیخ رشید نے عمران خان کو جو صائب مشورہ دیا تھا اس میں اسی کی مصلحت کار فرما تھی۔ جب سے میاں نواز شریف باہر گئے ہیں حکومت کے لیے راوی سب چین لکھتا ہے۔ خان کو چاہئے کہ میڈیکل چیک ۔ اپ کے لیے زرداری کو بھی نیو یارک بھجوا دیا جائے۔ جب سیاسی گلیاں سُنسان ہو جائیں تو پھر بلاروک ٹوک مرزا یار کے لیے سیر سپاٹے کے کئی مواقع میسر آ سکتے ہیں۔
بھٹو کے آنے سے پہلے نواب کالا باغ اور جنرل موسیٰ مغربی پاکستان کے گورنر رہے۔ ان دنوں جسٹس رستم کیانی سے منسوب یہ لطیفہ زبان زدِ خاص و عام رہا۔ دیگر حکومتیں عوام کو سبز باغ دکھاتی تھیں ، ایوب خان نے کالا باغ دکھا دیا ہے۔ رنگوں کے انتخاب سے قطع نظر یہ ایسا باغ تھا جس میں سیر گلستان ممنوع تھی۔ اس کا نام سن کر ہی لوگوں پردہشت طاری ہو جاتی۔ نوکر شاہی کے منہ زور گھوڑے کو بھی اس نے لگام ڈالی۔ جب نواب صاحب گورنر اختر حسین سے چارج لے رہے تھے تو اس نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا ’’چیف سیکرٹری خورشید سے خبردار رہنا۔ یہ بڑا خودسر خنانس اور منہ زور ہے۔ اس نے دوران گورنری میری کوئی بات نہیں مانی۔‘‘ جواباً امیر محمد خان منہ سے تو کچھ نہ بولے، صرف مونچھیں تن گئیں۔ پہلے دن جب وہ کوئی فائل لیکر آیا تو اس کا طمراق دیدنی تھا۔ سوٹ پہنے، ٹائی کی جگہ BOW لگائے اور منہ میں پائپ جس میں سے ’’اپرن لور‘‘ تمباکو کا معتبردھواں اُٹھ رہا تھا۔ تمباکو کے پائپ کی طرح منہ ٹیڑھا کر کے جب اس نے دریائے ٹیمز میں دُھلی ہوئی انگریزی بولی تو گورنر ’’عش عش‘‘ کر اٹھے۔ یہی عمل جب اس نے دوسری بار دہرایاتو وہ بولے ۔ ’’دیکھو خورشید! اگر میں گھر چلا گیا تو میں نواب کالا باغ ہی رہونگا۔ بالفرض تمہیں جانا پڑا تو تم کیا کرو گے؟
’’گھانٹری پیٹرو گے؟‘‘ (لو کہو سے تیل کشید کرو گے) انہوں نے دراصل اس کی ذات کی نشاندہی کر دی! وہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ آکسونین انگریزی نے بھی اس کے گلے کی سرنگ میں چند گرداب کھائے اور دریا بُرد ہو گئی۔ اسے بالآخر نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ اس کی انگریزی بیوی تھی۔ کوٹھی میں سرکاری خرچ سے سوئمنگ پول بنا رکھا تھا جس میں دونوں بیئر کا گلاس چڑھا کر تیراکی کرتے تھے۔ اسے کہا گیا کہ تالاب پر خرچ شدہ رقم وہ اپنی جیب سے ادا کرے۔ ان چند شہیدوں نے نوکر شاہی کے منہ زور گھوڑے کو لگام ڈال دی۔ یہ اپنے آپ کو انگریزی کا جانشین اور معنوی اولاد سمجھتے تھے۔ جتنا عرصہ وہ گورنر رہے کسی کو ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔
جتنا عرصہ امیر محمد خان گورنر رہے، راوی چین لکھتا تھا، ایوب خان کو مغربی پاکستان میں امن عامہ کاکوئی مسئلہ پیش نہ آیا۔ امیر محمد خان کا مزاج آمرانہ تھا جس میں ظلم کا عنصر بھی کسی حد تک شامل تھا۔ ان کے مخالفین انہیں حجاج بن یوسف ثانی کہتے۔ وہی نوکر شاہی جو صوبے میں منقار زیر پر تھی اس نے مرکز میں ایوب خان کے کان بھرنے شروع کیے۔
جناب گورنر آپ سے زیادہ طاقتور بننے کی کوشش کر رہا ہے! کسی وقت نقصان پہنچا سکتا ہے۔ آمر کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہوتی ہے کہ وہ کانوں کا کچا ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ شکوک و شبہات کی دراڑیں گہری ہوتی گئیں۔ ان دنوں پنجاب میں محمد خان ڈاکو کی دہشت پھیلی ہوئی تھی۔ وہ لاوہ کا اعوان تھا۔ ایوب خان کو بتایا گیا کہ وہ نواب صاحب کا خاص آدمی ہے، جبھی تو پولیس اسے گرفتار نہیں کرتی۔ وہ ان کے ایماء پر ایوب خان کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ تعلقات میں اصل رخنہ اس وقت پڑا جب ایوب خان کی خواہش کے برعکس امیر محمد خان چودھری ظہور الٰہی کو سزا دینا چاہئے تھے۔ اُن کے خیال میں چودھری صاحب خود گورنر بننا چاہتے تھے۔ اس کی تفصیل قدرت اللہ شہاب نے اپنی سوانح عمری میں بیان کی ہے۔ گورنر ہائوس میں جب صدر ایوب نے انہیں ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کا کہا تو وہ پھٹ پڑے۔ کہنے لگے ، یہ موذی آسانی سے نہیں مرے گا۔ میں نے اس کے لیے ایک بلڈ اگ پال رکھا ہے۔ اس نے اشارہ کیا تو ایک S.P تن کر کھڑا ہو گیا بالآخر اختلافات نواب صاحب کے استعفیٰ پر منتج ہوئے۔ ایوب خان نے ان کی جگہ جنرل موسیٰ کو گورنر مقرر کیا۔ دونوں کے مزاج میں بعدالمشرقین تھا۔ اس کا تجزیہ ایک بیوروکریٹ نے ان دلچسپ الفاظ میں کیا۔ ’’پہلا کسی کی سنتا نہیں تھا ، دوسرا سمجھتا نہیں ہے‘‘ قطع نظر اس طنز کے جنرل موسیٰ نہایت شریف انسان تھا۔ ایک سپاہی سے کمانڈر، ان چیف کے عہدے پر پہنچنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ نواب صاحب کے بعد کوئی شخص بھی گورنر بنتا اس کے لیے امور سلطنت چلانا آسان کام نہ تھا۔
’’جرائم پیشہ عناصر کھل کھیلنے لگے۔ امنِ عامہ کی صورتِ حال بگڑنے لگی۔ ایوب خان نے بھی ہلکی پُھلکی ناراضی کا اظہار کیا۔ جنرل صاحب کو ان کے کسی مشیر نے مشورہ دیا کہ اگر صوبے کے غنڈوں کو پکڑ کر اندر کر دیا جائے تو ان کی حکومت کی WRIT بحال ہو جائے گی نتیجتاً انہوں نے فرمان صادرکیا کہ سب غنڈے پکڑ لئے جائیں۔ گورنر صاحب ہر صبح فون کر کے آئی ۔ جی سے پوچھتے ۔ ’’کتنا گُنڈہ پکڑا ہے!
کتنا گنڈہ پکڑا ہے؟‘‘ پولیس روایتی محور پر اصل جرائم پیشہ افراد کی مربی اور محسن رہی ہے۔ انہوں نے غنڈوں کو تو کیا پکڑنا تھا ، ہیرا منڈی کے کچھ دلالوں کو پکڑ کر مچھ جیل بھجوا دیا۔ اتفاق سے ان دنوں میں اور ملک غلام مصطفی مرحوم مچھ میں جیل ٹریننگ لے رہے تھے۔ (جاری)

مزیدخبریں