ڈاکٹر امجد ثاقب کا ڈی این اے کروایا جائے تو ضرور کسی مہربان فرشتے کے ڈی این اے سے میچ کرے گا۔ کوئی ڈیڑھ عشرہ قبل انہوںنے مواخات مدینہ کی بنیاد پر اخوت کا ڈھانچہ کھڑا کیا اورا ٓج اس کی چکا چوند سے دنیا کی ا ٓنکھیں چندھیا رہی ہیں۔ اخوت کے ماڈل پر برکلے، آکسفورڈ، کیمبرج میں پی ایچ ڈی ہو رہی ہے۔
اب کرونا کی قیامت برپا ہوئی تو ڈاکٹر امجد ثاقب کے ذہن رسا نے ایک لمحہ ضائع نہیں کیا اور وہ جو وزیر اعظم اس خدشے کاا ظہار کر رہے ہیں کہ کہیں لاک ڈائون میں نادار لوگ کرونا کے بجائے فاقوں سے زیادہ نہ مر جائیں،۔ ان فاقہ مستوں کے لئے ڈاکٹر امجد ثاقب نے بڑی پیش رفت کی ہے،۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمسایہ اپنے ہمسائے سے پوچھے کہ بھائی کہیں بھوکے تو نہیں ہو، اسی طرح ہر مسجد میں پانچ وقت اذان کے ساتھ یہ اعلان کیا جائے کہ اگر کسی کو روزگار میسر نہیں ہے تو وہ مسجد چلا آئے اللہ نے ا س کا رزق آسمانوں سے نازل کر دیا ہے اور تیسرے مرحلے میں ایک امیر محلہ آس پاس کے کسی غریب محلے کی امداد کرے۔
کیا نادر اور کارا ٓمد تجاویز ہیں جن پر عمل کرنے سے چند ہفتوں کا نہیں، کئی ماہ کا لاک ڈائون بھی برداشت کیا جاسکتا ہے۔ لاک ڈائون کئے بغیر چارہ نہیں کہ اسی طرح خلق خدا کو کرونا کے وائرس سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے مگر جب لاک ڈائون ہو گا تو سوال اٹھے گا کہ غریب اور دیہاڑی دار کھائیں کہاں سے، ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس مشکل سوال کا جواب پیش کر دیا ہے۔، نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری۔ سار املک فاقہ کشی سے نجات پا جائے گا اور کرونا سے مقابلہ کے لئے لوگوں میں ہمت ا ور حوصلہ پیدا ہو گا۔
جو کٹھن کام دنیا کی سپر طاقتیں اور انتہائی ترقی یافتہ حکومتیں نہیں کر سکیں وہ فرد اور ایک فرشتہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے کر دکھایا۔ ایک زمانہ تھا جب جماعت اسلامی نے مٹھی آتا اسکیم چلائی تھی۔میںدو تین دن میں اپنے گھر کا مٹکا آٹے سے خالی کر کے محلے میں بانٹ دیتا تھا۔
میں ایک معصوم بچہ تھا اور کسی بھی مصلحت سے ا ٓشنا تک نہیں تھا، میرا یقین ہے کہ آج میری طرح محلے کے معصوم بچے ڈاکٹر امجد ثاقب کی اپیل پر آگے بڑھیں گے اور اپنے ہمسائے سے یہ پوچھنے میں شرماہٹ محسوس نہیں کریں گے کہ آنٹی یا انکل آپ کے گھر آج چولھا جلا یا نہیں ، آپ کے گھر میں آٹا یا سبزی ہے یا نہیں ،نمک مرچ مصالحہ ہے یا نہیں اور ایک ہمسائے کو یہ چیزیں دینے سے کسی امیرشخص کا باورچی خانہ خالی نہیں ہوگا بلکہ خدا کا ارشاد ہے کہ جتنا بانٹو گے خدا ا س سے دس گنا عطا کرے گا۔
انسانیت کا دکھ درد ڈاکٹر امجد ثاقب سے دیکھا نہیں جاتا۔، انہوںنے ایک بوڑھی خاتون کی مدد کے لئے دس ہزار کے قرض حسنہ سے اخوت کی تحریک کاآغاز کیا۔ آج اس تنظیم کا مالی پھیلائو ایک ہزار ارب سے زیادہ ہو چکا ہے۔ دنیا کا کوئی شخص اس قدر مالدار نہیں پاکستان کی کل آمدنی اتنی نہیں جتنا اکیلے ڈاکٹر امجد ثاقب کی تنظیم نے اخوت کے پلیٹ فارم سے غریبوں اور حاجت مندوں میں بانٹ دیا ہے ۔ اور یاد رکھئے ان کے قرضے بلا سود ہیں اور ان کی شرح واپسی ننانوے فی صد سے زیادہ ہے۔ کئی مقروض آج اخوت کو سرمایہ فراہم کرر ہے ہیں ،وہ کہتے ہیں ہم نے اس سے کمایا تو اب ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ دوسرے حاجت مندوں کی مدد کے لئے اخوت کا ہاتھ بٹائیں۔ اخوت نیکی کے منصوبوں میں بہت آگے نکل چکی ہے۔
ایک یونیورسٹی ایسی بن گئی ہے جہاں تعلیم مفت ہے، رہائش مفت ہے لباس مفت ہے کتابیں مفت ہیں اور کھانا پینا مفت ہے۔ یہ پچاس کروڑ کا منصوبہ ہے جو میرے گھر سے دس منٹ کی مسافت پر پوری شان و شوکت اور آن بان سے چل رہا ہے۔ اخوت نے بے گھروں کے لئے سستے گھروں کا تجربہ بھی کر لیا ہے اور اسی بنا پر حکومت پاکستان نے اور خاص طور پر وزیر اعظم عمران خان نے ڈاکٹر امجد ثاقب کی دیانت ا ور امانت اور محنت شاقہ سے متاثر ہو کر ملک میں پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا منصوبہ بھی ان کے حوالے کر دیا ہے۔
کرونا کے مصائب نے غریب طبقات کو زیادہ پریشان کیا۔ لاک ڈائون ہو گیا۔ لوگ خوف زدہ ہو گئے۔ کاروبار ٹھپ ہوگئے۔ زیادہ نقصان دیہاڑی دار کو پہنچا۔ وہ خالی پیٹ اور خالی خولی نظروں سے ا ٓسمانوں والے کو تک رہا ہے۔ اورآسمانوں والے نے ان کی سن لی اور ڈاکٹر امجد ثاقب بھی متحرک ہو گئے۔ہمسایہ اپنے ہمسائے کے ساتھ۔ محلے والے اپنے محلے داروں کے ساتھ اور اسلام کا مرکزی مقام مسجد ۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کو میںنے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ کہتے سنا ہے کہ لاہور شہر کی چوبیس ہزار مسجدوںمیں دستر خوان کااہتمام کیا گیا ہے۔ جو شخص دیہاڑی نہ ملنے سے بھوکا ہے۔ وہ اپنی بھوک مٹا لے اور اگر دور کسی گائوں یا گوٹھ میں اس کے گھر والے بھوکے ہیں تو ان کے لئے راشن کے تھیلے لے جائے۔ یہ فراخدلی کسی بل گیٹس یا سیٹھ انبانی نے بھی نہ دکھائی ہو گی ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی تحریک صرف شہر لاہور تک محدود نہیں۔ وہ پاکستان بھر کے بائیس کروڑ آبادی کے ملک کے لئے وسائل بہم پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ خدا ان کو اپنے ارادوں اور نیک مقاصد میں کامیاب کرے۔
ایک فرشتہ سیرت ہم سب کے درمیان موجود ہے۔اس نے ناداروں کو اپنے مہربان پروں کے سائے میں لے لیا ہے۔
٭…٭…٭