کروناکیخلاف وزیر اعظم کا ساتھ دیں

میاں نواز شریف نے 2013ء کے انتخابات کی مہم کے دوران جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے وزیر اعظم بن کر وہ وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں بیٹھیں گے،اس کے بجائے میں اب عوام کے ساتھ رہوں گا۔ان اقوال زریں میں سے انہوں نے عمل کر کے اپنے ایک قول کوتو سچ کر دکھایا۔ وہ واقعی وزیر اعظم بن کر وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں بیٹھے اکثر بیرونی دوروں پر رہے یا پھر لاہور تشریف لے جاتے تھے۔ عوام تو عوام خواص کو بھی ان کو اپنے درمیان دیکھنے کی حسرت ہی رہی۔ ایم این ایز اوروزراء تک میاں صاحب سے ملاقات نہ ہونے پرشکوہ کناں رہتے تھے۔ ان کی ملاقات گریز طبیعت اور مزاج ِشاہی کے مظاہرے اپنے جانثار نہال ہاشمی جیسے لوگوں کے ساتھ لندن کے متنازعہ سے فیئر فلیٹس کے گیٹ پر دیکھے جا چکے ہیں۔ ایک خاتون کی معیت میں محل کے اندرکیک کاٹنے کی اجازت نہ ملنے پر شاہراہ پر میاں صاحب کی سالگرہ منانا بھی ایسے مزاج اور رویے کا غماز ہے۔ آج کے وزیر اعظم عمران خان سے پارٹی کارکنوں ، لیڈروں اور وزراء کو ملاقات نہ ہونے کا گلہ نہیں ہے۔ وزراء تو روز روز ان کی میٹنگ اور اجلاسوں سے تنگ پڑ چکے ہوں گے۔ عمران خان جتنے عزم و ارادے سے آگے بڑھ رہے ہیں ،عوام کاان پر اعتمادبڑھتا جا رہاہے۔ مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہو چکا ہے۔ پٹرول کی قیمت 15روپے فی لٹر کم کر دی گئی ہے اس میں مزید کمی کا بھی عندیہ دیا گیا ہے۔ بجلی و گیس کے نرخ نہ صرف ایک جگہ منجمد کر دیئے گئے بلکہ کرونا بحران کے لوئر مڈل کلاس کو تین ماہ میں قسطوں کی ادائیگی کی سہولت بھی فراہم کر دی گئی۔ اس حکومت کو معیشت کی ایسی کشتی ملی جس میں چھید ہی چھید تھے۔ ان کو بند کرکے کشتی کو رواں دواں کر دیا تو کرونا کا بحران سامنے آ گیا جسے بڑی حکمت اور دانش سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمتِ مرداں مددِ خدا۔ وزیر اعظم عمران خان کی نیک نیتی اور سیاست سے بالاتر ہو کر کرونا وائرس کے تدارک کے لیے سر گرم ہیں۔ پوری کابینہ کی خصوصی توجہ اسی طرف ہے۔ عمران خان اجلاس پر اجلاس کر رہے ہیں۔ عوام کے ساتھ رابطوں میں ہیں ۔ میڈیا سے بات کرتے ہیں۔ہفتہ وار قوم سے خطاب کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔عوام کو لگتا ہے ان کا وزیر اعظم ان کے ساتھ اور ان کے درمیان ہے۔
عمران خان کو کچھ لوگ مکمل لاک ڈاؤن یعنی کرفیو کا مشورہ دیتے ہیں ،ایسا مشورہ دینے والوں کی اکثریت کا تعلق اشرافیہ سے ہے۔ ان کے مقابلے میں عام آدمی کی حالتِ زار سے آگاہ لوگ لاک ڈاؤن کو کافی سمجھتے ہیں جس میں زندگی منجمد ہو کر نہیں رہ گئی۔عوام کی ضروریاتِ زندگی تک رسائی ہے۔مکمل لاک ڈاؤن کے مشورے دینے والے نیک نیت بھی ہوں گے مگر اکثر سیاسی مقاصد کے لیے ایسا چاہتے ہیں۔میاں شہباز شریف مکمل لاک ڈاؤن کے زیادہ حامی ہیں،مراد علی شاہ کی بھی یہی سوچ تھی انہوں نے سندھ میں ایسا کرنے کی کوشش کی۔وہاں اس کے ملے جلے نتائج سامنے آئے،پنجاب کی آبادی سندھ سے کافی زیادہ ہے،اس لئے کرفیو سے تیاری کئے بغیرانسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے جس کے صدر میاں شہباز شریف ہیں،ان دو میں آبادی بھی کم ہے اگر کرفیو کی ان کی نظر میں افادیت ہے تو وہاں اب تک لگ جانا چاہیئے تھا۔ خدا نہ کرے کہ ملک بھر میں حالات کرفیو کی طرف جائیں ۔ پاکستان میں کرونا سرِ دست کنٹرول میں ہے۔ اٹلی کے بعد امریکہ میں کرونا وائرس بے قابو ہو چکا ہے۔ سب سے زیادہ کیسز امریکہ میں سامنے آئے اور اموات بھی دنیا کی واحد سپر پاور کے ہاں ہو رہی ہیں ۔ امریکہ اس حالت پر بے بس ہے۔ پاکستان میںپندرہ ہ سو کیس سامنے آئے ،17افراد لقمہ اجل بنے۔ یہ تعداد بھی کم ہوتی اگر ہم AWAREہوتے۔دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لئے کرونا وائرس سے 33 ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔لوگوں کے ذہن میں بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ کرونا کا مریض بچتا نہیں،جہاں اتنی اموات ہوئی ہیں وہیں ایک لاکھ تیس ہزار مریض صحت یاب بھی ہوئے ہیں۔اکثر مرنے والے دیگر مہلک بیماریوں میں بھی مبتلا تھے۔کرونا کا مقابلہ سندھ کے وزیر سعید غنی کی طرح پامردی سے کرنے کی ضرورت ہے جو تیزی سے ریکور ہورہے ہیں۔ اب تیزی سے کرونا سے عوامی سطح پر آگاہی ہو رہی ہے اور جلد صورتِحال بہتر ہو سکتی ہے۔ تمام احتیاط کے باوجود رجوع الی اللہ کی ضرورت ہے۔ اس آفت سے نجات کے لیے لوگ تائب ہو رہے ہیں۔ساری رات اذانوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس موقع پر پوری قوم کو یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔خصوصی طور پر اپوزیشن سیاست سے گریز کرتے ہوئے حکومت کے ہاتھ مضبوط کرے۔آئو سب مل کر وزیراعظم کا ساتھ دیں۔

محمد یاسین وٹو....گردش افلاک

ای پیپر دی نیشن