اسلام آباد(محمد صلاح الدین خان/نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے 408 آٹھ قیدیوں کی رہائی کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل قرارد دیتے ہوئے ہائی کورٹس اور صوبائی حکومتوں کو قیدیوں کی رہائی کے مزید احکامات جاری کرنے سے بھی روک دیا گیا، عدالت نے دیگر عدالتوں کی جانب سے جاری فیصلے بھی معطل قرار دے دیئے ہیں، عدالت نے وفاق، تمام صوبائی حکومتوں، چیف کمشنر اسلام آباد، ڈی سی اسلام آباد، آئی جی پی اسلام آباد، سیکرٹریز داخلہ، صحت، پراسیکیوٹر جنرلز نیب، اے این ایف، آئی جی جیل خانہ جات، ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے یکم اپریل تک ملتوی کر دی ہے۔ عدالت نے سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل شیخ ضمیر حسین کو عدالتی معاون مقرر کر دیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے ہائی کورٹس مختلف فیصلے دے رہی ہیں، کرونا وائرس کی وجہ سے قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے سپریم کورٹ گائیڈ لائن طے کرے، انہوں نے درخواست گزار کے حق دعوی پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وائرس ایک سنجیدہ مسئلہ ہے لیکن اس وجہ سے سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کی رہائی کی اجازت نہیں دے سکتے، ہمیں پتہ ہے ملک کو کن حالات کا سامنا ہے۔ جائزہ لیں گے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کس اختیار کے تحت قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا، ہائی کورٹس ازخود نوٹس کا اختیار کیسے استعمال کر سکتی ہیں؟ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آفت میں لوگ اپنے اختیارات سے باہر ہو جائیں، لگتا ہے کہ یہ اختیارات کی جنگ ہے ہمیںان حالات میں بھی اپنے اختیارات سے باہر نہیں جانا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ اس انداز سے ضمانتیں دینا۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کسی نے ایک ہفتہ پہلے جرم کیا وہ باہر آجائے گا، ایسی صورت میں شکایت کنندہ کے جذبات کیا ہونگے؟جن کی دو تین ماہ کی سزائیں باقی ہیں انھیں چھوڑ دیں۔ بیرون ملک قیدیوں کی رہائی کے لیے کمیشن بنائے گئے ہیں، چھوٹے جرائم میں ملوث ملزمان کو رہائی ملنی چاہیے خوف نہ پھیلایا جائے، ہائیکورٹ نے دہشتگردی کے ملزمان کے علاوہ سب کو رہا کر دیا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آفت میں لوگ اپنے اختیارات سے باہر ہو جائیں۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ہمارا دشمن مشترکہ ہے، ہمیں خوفزدہ ہونے کے بجائے پر سکون رہ کر فیصلہ کرنا ہے۔ سپریم کورٹ نے قیدیوں کی رہائی سے متعلق کیس کا دو صفحات پر مشتمل تحریری عبوری آرڈر جاری کر دیا ہے۔