حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھاگئے

عالی مرتبت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مدظلہ العالیٰ کاپاکستان کی سیاست میں ایک نمایاں مقام ہے ۔ایک مخصوص مسلک کے متبعین کی بڑی تعداد آپ کو اپناسیاسی قائد مانتی ہے۔ آپ کاروبارِ سیاست کے جملہ رموز وغوامض کا گہرا ادراک رکھتے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ معاملہ فہمی اور دوراندیشی میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ۔ سیاسی بساط بچھانے ، الٹانے اور پلٹانے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ بسا اوقات ہوا میں گرہ لگا دیتے ہیں اور چاہیں تو پانی کا بلبلہ ہاتھ میں پکڑلیتے ہیں۔ آپ جوڑ توڑ کے ماہرگردانے جاتے ہیں ۔ ماشاء اللہ حکمت و دانش آپکے در کی گدا ہے ۔علم و فضل آپ کی دہلیز پہ ناصیہ فرسا ہے۔کچھ لوگ تو آپ کو قرون اولیٰ کے قافلۂ صدق و وفا کا بچھڑاہوا جاں نثار قرار دینا چاہتے ہیں لیکن انکی ظاہر ی حیات میں اس کابرملا اظہار مناسب نہیں سمجھتے ۔ اس طرح کے وزنی جملے مذہبی شخصیات کے تعزیتی جلسوں میںہی زیادہ جچتے ہیں۔لہٰذا مناسب وقت کا انتظار ہے۔ پاکستان، اسلام اوربالخصوص اسلام آباد کی محبت آپ میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے۔ آپ ہر دور کے صاحبانِ اقتدار کے ساتھ مل کروطنِ عزیز میں اسلام کے عملی نفاذ کیلئے کوشاں رہے ہیں جس کی بہت سی مثالیں ہیں ۔ یادش بخیر، جنرل پرویز مشرف کے دور میں حدود آرڈیننس کیخلاف آپ نے توانا آواز بلند کی اور آرڈیننس منظور ہونے کی صورت میں فوری مستعفی ہونے کی دھمکی دے ڈالی۔ سوئے قسمت، وہ آرڈیننس منظور ہوگیا توحضرت مولانا کو احساس ہوا کہ اگر استعفیٰ دے دیا گیا تو وطن عزیز میں نہ اسلام بچے گا اور نہ جمہوریت!چنانچہ وسیع تر قومی مفاد میں آپ نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسلام و اسلام آباد کیلئے اپنی خدمات جاری رکھیں ۔ یوں تو پاکستان کے اندرونی و خارجہ محاذوں پر آپ کی بے پناہ خدمات ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی افغان پالیسی ہویا پاکستان میں ملا سیاست کا عنصر، آپ نے ہر دو معرکوں میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں ۔لیکن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے آپکی خدمات کا ایک طویل باب ہے۔جتنا عرصہ آپ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے، ہندوستان جیسے غاصب ملک کو اپنے آئین سے آرٹیکل 370 اور 35-A کے خاتمے کی جرأت نہ ہوئی۔اس غیر مستحسن اقدام کیلئے ہندوستانی سرکار آپکی رخصتی کا انتظارکرتی رہی۔ تاوقتیکہ آپ جیسا مرد ِمومن کشمیر کمیٹی کے معاملات سے سبکدوش ہوا تو مودی سرکار کی باچھیں کھل گئیں اور انھوں نے جلدی جلدی اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرڈالی۔ آج بھی ہندوستان کے بزرجمہروں کویہ فکر لاحق ہے کہ اگر مولانا دوبارہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بن گئے تو وہ کڑے احتساب سے کیسے بچ پائیں گے؟ ویسے بھی مولانا کی فکرِ رسا کے صدقے کشمیر آزاد ہواہی چاہتا تھا کہ آپ کے اقتدار کا چراغ ٹمٹما گیا۔ اگر یہ دیا کچھ برس اور جلتا رہتا تو یقینا آج جامع مسجد دلی کے میناروں سے آپ کالحن داؤدی کانوں میں رس گھول رہاہوتا۔ لیکن افسوس!
دی مؤذن نے شب وصل اذاں پچھلے پہر
ہائے! کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا 
بھلے وقتوں کی بات ہے کہ مولاناپی ڈی ایم کے ہر اجلاس کے بعد بنفس نفیس میڈیا نمائندگا ن سے راہِ مخاطبت استوار کرتے، آپکے اردگرد دیگر سیاسی جماعتوں کے نوزائیدہ قائدین طفل مکتب کی طرح سہمے کھڑے نظر آتے۔مولانا اپنے مخصوص لب و لہجے میں 1973ء کے آئین کے تناظر میں جمہوریت کی برکات پہ روشنی ڈالتے ۔ مہنگائی کا رونا روتے اور موجودہ حکومت کو آخری وارننگ دیکر لانگ مارچ کا عندیہ دے دیتے۔بہت سے تجزیہ نگار اور دانشور ہر شام ٹیلی ویژن چینلز پر مولانا کو نوابزادہ نصر اللہ خان اور خان عبد الولی خان کا ہم پلہ قرار دیتے ہوئے موجودہ حکومت کے خاتمے کی تاریخ پہ تاریخ جاری کرتے رہے۔
شنید تھی کہ شہر اقتدار کا ڈی چوک پھر سے آباد ہونے کو ہے لیکن سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ مولانا کے اندھے اعتماد کا ان کے کچھ سیاسی حلیفوں نے فائدہ اٹھایا اور اپنا حصہ وصول کر کے چلتے بنے ۔ مولانا اپنے طویل سیاسی سفر میں پہلی دفعہ کچھ پریشان سے دِکھ رہے ہیں ۔ خاص بات یہ ہے کہ پریشانی کے ساتھ ساتھ غصہ بھی امڈآرہاہے ۔ چنانچہ چند روز قبل اسی غصے کے عالم میں اپنے سیاسی سفر کی مختصر ترین پریس کانفرنس پر اکتفا کیا۔یہ سب کچھ خلاف توقع تو تھا ہی، خلاف روایت بھی تھا۔ مولانا جیسا زیرک اور گھاگ سیاست دان جس نے بیسیوں اتار چڑھاؤ دیکھے ہوں، ایسی خفگی اور سراسیمگی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ چنانچہ انکے اس عمل نے مریم نواز شریف سمیت سب کو حیران کر دیا۔ آج کل جہاں ایک طرف مولانا پریشان ہیں وہیں دوسری طرف مریم نوازصاحبہ حیران ہیں ۔مریم نواز شریف صاحبہ کے اتالیق ان کو یہ باور کراچکے تھے کہ آر پار کی سیاست ہی اونچی اڑان کا واحدشاخسانہ ہے۔ چنانچہ وہ اُڑے جارہی تھیں اور بے پر کی اُڑائے جارہی تھیں ۔سیاست کی وادیٔ خارزار میں کسی سراب کے تعاقب میں برہنہ پا ہر خار پہ پاؤں دھرے اپنی آشفتہ سری کو تسکین بہم پہنچارہی تھیں اور ہر موجود کندھے کو سہارا سمجھ کر اس پہ سر ٹیک رہی تھیں۔ صد حیف کہ بہت سی مسافت طے کرنے کے بعد جب حقیقت احوالِ واقعی منکشف ہوئی تو بہت دیر ہوچکی تھی ۔ محترمہ کے پاؤں اتنے زخمی ہوچکے ہیں کہ اب واپسی کا یاراہی نہیں اور وہ جسے منزل سے تعبیر کر رہی تھیں وہ محض ایک سراب نکلا، سارے کندھے ، آسرے اور سہارے کھسک جانے کے بعد یہ عقدہ وا ہوا کہ :
عجیب راہ گزر تھی کہ جس پہ چلتے ہوئے
قدم رکے بھی نہیں ، راستہ کٹا بھی نہیں
مولانا اور مریم نوازصاحبہ دونوں کا کرونا ٹیسٹ اگرچہ منفی آیا ہے تاہم ان کی طبائع انقلاب کابوجھل وائرس اٹھانے کے سبب تھکن زدہ ہیں۔ بنابر ایں دونوں صاحب فراش ہیں اور کاروبار سیاست سے رخصت پر ہیں ۔ اللہ ان کو جلد صحت یاب کرے تاکہ انکے بیانیے کو فروغ دینے والے اہل دانش کی رکی ہوئی گاڑی بھی چل پڑے۔ 
پھول تو دودن بہار جاں فزا دکھلا گئے 
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھاگئے

ای پیپر دی نیشن