انصاف کا مؤثر نظام کیسے؟

عدالتوں میں بڑے پیمانے پر مقدموں کا التواء اور انصاف میں تاخیر ، میرے لیے ہمیشہ تکلیف کا باعث بنا رہا ہے۔ماتحت عدالتیں زیرِ التواء مقدموں کو نمٹانے کیلئے پوری تندہی اور مسلسل محنت سے کام کریں تاکہ حصولِ انصاف میں تاخیر کی خرابی رفع کی جاسکے۔ میں اس بات پر بھی زور دونگا کہ قانون و قواعد کے دائرے میں رہتے ہوئے عدالت کا اپنا فریضہ ہے کہ وہ فوجداری اور دیوانی مقدمات نمٹانے کی رفتار تیز کرنے کیلئے حکمتِ عملی خود مرتب کرے جس سے سابقہ زیرِ التواء مقدموں کا بوجھ کم کیا جا سکے تاہم مجھے یہ بھی واضح کرنا ہے کہ مقدمات جلد نمٹانے کیلئے انصاف کی قربانی نہیں دی جا سکتی اس لیے احتیاط ناگزیر ہے۔ عجلت سے کیا گیا فیصلہ مبنی بر انصاف کہلانے کا مستحق نہیں ہے اس لیے منصفانہ فیصلے اور کیس نمٹانے کی عجلت میں توازن قائم رکھنا ضروری ہے۔
میرا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ عدلیہ ملک کے نظم ونسق کو بہتر اندازمیں چلانے میں موٗثرکردار ادا کر سکتی ہے ۔اس مقصد کیلئے انصاف کی بروقت فراہمی اور مقدمات کے جلد فیصلے ناگزیر ہیں۔ہائی کورٹس میں خالی اسامیاں پُر کرنے پر فوری اور خصوصی توجہ دی جائے۔ اِسی طرح متعلقہ ہائی کورٹس اسکے ماتحت عدالتوں میں خالی اسامیاں فوری طور پر پُر کی جائیں۔تاکہ انصاف کے انتظامی ڈھانچے کو موثر بنایا جاسکے۔ خصوصاً ماتحت عدالتوں میں بڑی تعداد میں مقدمات زیرِ التوا ء ہیں۔ متعلقہ ہائی کورٹ کے فاضل چیف جسٹس صاحبان ماتحت عدالتوں میں تنازعات کے حل اور ہر ماہ مقدمات کے بر وقت فیصلوںکے ذریعے ملک کے نظم ونسق میں مکمل اور موٗثرکردار ادا کریں۔انصاف کے مؤثر نظام سے ہی نظم ونسق کو بہتر بنایا جا سکتاہے۔
عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اُسے انصاف حاصل کرنے کیلئے خاصا پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ ٹکٹیں ،کورٹ فیس ،وکیلوں کی فیس، دور دراز علاقوں سے آنے جانے سمیت کئی طرح طرح کے کئی اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ مسائل یہیں ختم نہیں ہوتے بلکہ جب مقدمہ کی سماعت شروع ہوتی ہے۔تو بھی فیصلہ ہونے میں برسوں لگ جاتے ہیں تاریخوں پر تاریخیں پڑتی چلی جاتی ہیں۔ماتحت عدالتوں میں توبعض اہلکار بھی فریادیوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ پولیس کے کارندے بھی انکے مسائل سے فائد ہ اُٹھاتے ہیںاور غریب سائل ادھر اُدھر دھکے کھاتے رہتے ہیںکبھی وکیل پیش نہ ہونے سے اور کبھی گواہ نہ آنے کے باعث تاریخ پڑ جاتی ہے اور اگر گواہ آبھی جائے تو اُس کا بیان نہ قلم بند کرنے سے اور کبھی جج صاحب رُخصتی کے سبب التوا کئی کئی ماہ چلتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے مقدمات بھی برسوں لٹکتے رہتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں طلاق اور جائیدادوں کے تنازعات کے مقدمات بالخصوص بہت ہی تکلیف دہ ہیں۔جہاں پہلے ہی خوشیاں ، سہولتیں اور خوش حالی بہت کم ہے۔اگر ان میں مصیبتیں بھی شامل ہو جائیںتو زندگی اجیرن ہو جا تی ہے۔میں اس بات پر زور دونگا کہ زیرِ التواء مقدموں کا فیصلہ جلد ہونا چاہیئے تاکہ  لوگوں کو انصاف کیلئے ذلیل وخوار نہ ہونا پڑے اور جو نئے مقدمات دائر کئے گئے ہیں انہیں بھی نمٹایا جاسکے۔
پاکستان لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں انصاف جلد فراہم کرنے کیلئے کئی اصلاحی اقدامات کیے ہیں۔ ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنوں کو چیف جسٹس پاکستان کے ان اقدامات کا خیر مقدم کرنا اور عدلیہ سے پورا تعاون کرنا چاہیئے تاکہ فوری انصاف فراہم کرنے کے مقاصد پورے ہوسکیں اور مسائل پر قابو پایا جاسکے۔ تاہم حکومت کو بھی اس مسئلے پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔پاکستان لاء کمیشن نے جو سفارشات وقتاًفوقتاً حکومت کو پیش کی ان پر عمل ہو نا چاہیئے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ہائی کورٹس کی ماتحت عدالتوں کی سخت اور باقاعدہ نگرانی سے کارکردگی بہتر ہوگی۔ان مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے ترجیحات کا تعین اور مناسب حکمتِ عملی مرتب کی جائے تاکہ انصاف کی فراہمی کا عمل تیز ہو۔وجوہات کچھ بھی ہوںانصاف کی فراہمی میں تاخیر فریقین کیلئے بہت تکلیف دہ مالی پریشانی اوراذیت کا باعث ہوتا ہے۔مقدمات کے اخراجات کم کرنے کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے تاکہ صرف صاحب ِ ثروت افراد ہی انصاف حاصل نہ کر سکیںبلکہ عام شہری بھی اپنا حق حاصل کرنے میں کامیاب ہو۔ تاہم اصل مسئلہ ریاستی اداروں اور عام شہریوں کے مابین تنازعات کی صورت میں جلد اور بر حق فیصلہ ہونا چاہیئے۔ کیونکہ عام شہری انکے خلاف آواز بلند کرنے کی صورت میں مزید مسائل ومصائب کا شکار ہوجاتا ہے۔
اصل تو یہ ہے کہ جلد اور سستے انصاف کا مقصد اس وقت ہی حاصل ہو تا ہے جب بنچ اور بار دونوں اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔اور وکلاء صاحبان ہر سطح پر تعاون کریں تاکہ عوامی شکایا ت کا جلد ازالہ کیا جاسکے۔ میں آزاد عدلیہ اور مضبوط بار کے حق میں ہوں، جب تک بار اور بنچ انصاف کی فراہمی کیلئے ایک دوسرے سے تعاون نہیں کرینگے کسی ایک ادارے کی کامیابی ممکن نہیں یہ سب کچھ ملک و قوم کے بہترین مفاد کیلئے ضروری ہے۔ ملک میں امن وامان کا قیام اور معاشرے کی معاشی اور اقتصادی ترقی کا بھی انصاف کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔انصاف کی بہتری سے انتظامیہ کو بہتر بنانے، سرمایہ کاری کے فروغ، تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ، اقتصادی استحکام اور قومی فلاح و بہبود کے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ وقت کا اہم تقاضا ہے کہ مقدمات میں التواء کا خاتمہ ہویہ التواء متعدد وجوہات کی وجہ سے ہوتاہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ عدلیہ ان معاملات پر فوری توجہ دے۔آخرمیں میری مؤدبانہ عرض ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان ماتحت عدالتوں کی کارکردگی کا مسلسل جائزہ لیتے رہیں۔ رہنمائی اور احتساب جاری رکھیں تاکہ مقدمات میں پھنسے ہوئے عوام کو مشکلات سے نجات دلائی جاسکے۔ 

ای پیپر دی نیشن