جانے والے تیرے قدموں کے نشاں باقی ہیں 

پاکستانی اشرافیہ یوں تو ’’مغرب کا راج ہی سچا ہے‘‘ سمجھتی ہے ، دل و جان سے پیار بھی کرتی ہے ، ان کی ہر ہر، ادا پر صدقے واری جاتی ہے۔ تن ڈھانپنے سے لے کر تمام معاملات میں انہی کے اطوار کو اپنایا جاتا ہے۔ سیاستدان اور بیورو کریٹ کچھ زیادہ ہی ’’حسبی نسبی‘‘ تعلق بناتے ہوئے وفاداریاں نبھاتے ہیں ، انہی کو آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ تاہم ہمارے سیاسی کلچر اور حکومتی ڈھانچے میں ایسی مثال ’’چراغ لے کر ڈھونڈے‘‘ سے بھی نہیں ملتی کہ اگر کوئی سیاستدان یا حکومتی عہدیدار آئین و قانون کے تقاضوں کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نہ نبھا سکے تو وہ چپکے سے گھر کی راہ لے۔ اگرچہ امریکہ میں بھی ٹرمپ نے ایسی طرح ڈال دی ہے کہ دنیا بھر کے کئی ترقی یافتہ اور تمام ترقی پذیر ملکوں میں نظاموں کو تلپٹ کرنے کے لیے دہکائی ہوئی آگ کی تپش اب عالمی طاقتوں کے ایوانوں میں بھی محسوس کی جانے لگی ہے ، خیر…! یہ سب کچھ تو تمہیداً ہی آ گیا ہے ، اصل معاملہ تو وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی ’’رخصتی‘‘ ہے کل تک تو ان کے قصیدہ پڑھے جاتے تھے لیکن اچانک ہی ان کو مہنگائی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے سارے ’’اعزازات‘‘ چھین کر رخت سفر باندھنے کاکہہ دیا گیا۔ حالانکہ اصولاً تو یہی بنتا تھا کہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ 3 مارچ کو ہی اپنا بریف کیس اٹھاتے اور جہاں سے آئے تھے وہیں جا کر رپورٹ کرتے حالانکہ اُس وقت بھی ’’غیر جانبدار‘‘ حلقے یہی کہہ رہے تھے کہ عبدالحفیظ شیخ کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ لیکن ’’شاید عاشق کا جنازہ دھوم سے ہی نکلنا تھا‘‘ اور ’’کوچۂ جاناں‘‘ سے ’’عزت‘‘ و ’’آبرو‘‘ کے ساتھ ہی رخصت ہونا نصیب میں لکھا تھا۔ پہلے تو حکومتی حلقوں کو ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا وجود ایک ’’نعمت غیر مترقبہ‘‘ لگتا تھا ، ملکی معیشت کے لیے وہ ناگزیربھی تھے ، اسی لیے ان کو کام جاری رکھنے کا کہا گیا تھا ، سینٹ الیکشن کے بعد بھی ان کا ’’ستارہ‘‘ بظاہر عروج پر ہی تھا۔ ملکی معیشت میں دم انہی کے قدم سے تھا ، آئی ایم ایف کے ’’در‘‘ پر لے جانے کا سہرا بھی انہی کے سر سجایا جا رہا تھا لیکن پھر اچانک کیا ہوا کہ مہنگائی کا سارا بوجھ ہی ان پر ڈال دیا گیا ، بیمار معیشت کا قصور وار ٹھہرایا گیا اور یوں عبدالحفیظ شیخ خزانے کی ’’چابیاں‘‘ چھوڑ کر چلتے بنے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ 2000ء سے 2002ء تک سندھ میں خزانہ اور منصوبہ بندی کے وزیر رہے۔ 2003ء میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر سینیٹر بنے اور مشرف حکومت میں پرائیویٹائزیشن کے وفاقی وزیر بن گئے۔ 2006ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر بنے اور 2012ء تک رہے۔ 2010ء میں یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وزیر خزانہ بھی رہے۔ 2013ء میں وزارت سے مستعفی ہو گئے۔ 
اپریل 2019ء میں وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے خزانہ بن گئے ، 11 دسمبر 2020ء کو وفاقی وزیر خزانہ کا منصب ان کو تفویض ہوا۔ تب تک ان جیسا ’’ماہر معیشت‘‘ پاکستان میں کوئی نہیں تھا۔ تعریفیں ہو رہی تھیں ، بڑے ماہر معیشت ہیں ، بوسٹن یونیورسٹی امریکہ سے معاشیات میں ایم اے اور پی ایچ ڈی ہیں ، ہارورڈ یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔ ورلڈ بنک اور اسلامی ترقیاتی بنک کے بورڈ آف گورنرز کے ممبر رہے۔ ماضی کی ’’لٹی پٹی‘‘ معیشت کو سنبھالا دیا ، آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکج منظور کرائے۔ اب ڈالر کی اُڑان ، روپے کے گرنے ، انفرادی و اجتماعی معیشت کے مسلسل زوال کا ذمہ دار ہی ان کو ٹھہرایا جا رہا ہے، اس سے ان کی ’’معاشی مہارتوں‘‘ کا بھرم بھی کھل گیا ہے۔ 
اس ستم گر کی حقیقت ہم پہ ظاہر ہو گئی 
ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہو گیا 
اب عوام کو ریلیف دینے کے لیے وزیر اعظم کے عزم نے پھر انگڑائی لی ہے ، معاشی ٹیم بدلنے کا فیصلہ کیا ہے ، وزارت خزانہ کا قلمدان حماد اظہر کو سونپا ہے وہ بھی لندن کی ایک یونیورسٹی سے اکنامکس میںگریجویٹ ہیں ، قانون میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ بھی لندن سے کررکھاہے ، ’’لنکنز اِن سوسائٹی‘‘ کے ممبر بھی ہیں۔ دیکھتے ہیں ، ملکی معیشت میں کیا انقلاب لاتے ہیں ، ان کو عام آدمی کی معاشی حالت بہتر بنانے پر توجہ دینا ہو گی، وزارت کومنصب سمجھ کر لطف اندوز ہونے کی بجائے ، ذمہ داری سمجھ کر نبھانا ہو گا کیونکہ 
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیںتھا 
اس کو بھی اپنے خدا ہونے کا اتناہی یقیں تھا 
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتائو 
وہ کہاں ہیںکہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا 
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہرمیں تنہا لیے دل کو 
اک زمانے میں مزاج ان کا عرش بریں تھا 
ملک کے معاشی حالات کا تقاضا ہے کہ ان کوسنبھالا دینے کے لیے تمام صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں ، جہاں جہاں ضروری ہو، اصلاحات بھی کی جائیں لیکن ڈر ہے کہ نئی ٹیم بھی کہیں انہی راستوں پر چلنے کے لیے مجبورنہ ہو جائے کیونکہ 
جانے والے تیرے قدموں کے نشاں باقی ہیں 
ہم تو سجدے انہی راہوں پہ کیے جائیں گے 

ای پیپر دی نیشن