پچھلے آدھے گھنٹے سے سٹرک کنارے بس کے انتظار میں کھڑے کھڑے مجھے رات کے تقریباََ سواگیارہ بج چکے تھے۔بار بار مجھے یہ خیال ستا رہا تھا کہ گھر والے بغیر اطلاع میری اتنی لمبی غیر حاضری سے پریشان ہورہے ہونگے۔خاص طور پر اس لئے بھی کیونکہ میرے ساتھ پہلے کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا تھا۔دفتر میں کچھ ایمرجنسی کام کی زیادتی تھی جس کی وجہ سے مجھے دفتر میں خاصی دیر ہو گئی تھی۔کام کی نوعیت ایسی تھی کہ بقول باس اسے کل پر نہیں چھوڑا جاسکتا تھا اور باس کے حکم کے آگے تو ویسے بھی’’نوکر کیہ اور نخرہ کیہ‘‘ والی بات تھی نوکری جوکرنی تھی جس میں جلدی کرتے کرتے بھی رات کے ساڑھے دس بج گئے۔اس کے بعد دفتر سے نکل کر بس سٹاپ پر آتے اور بس کا انتظار کرتے رات کے سوا گیارہ کا وقت ہو چکا تھا۔اس دوران کوئی بیس منٹ پہلے میرے روٹ کی ایک ویگن یہاں سے گزری تھی جس میں ایک تو سواریوں کی بھیڑ اور دوسرا میری کاہلی کی وجہ سے میں اس میں سوار نہ ہو سکا۔ گھر والوں کی پریشانی کا پھر سے خیال آتے ہی میں نے سوچا اب کسی ویگن یا بس کا مزید انتظار کرنے کی بجائے گھر پہنچنے کے لئے مجھے رکشا لے لینا چاہیے ،ویسے بھی اتنی رات گئے اب کسی ویگن یا بس کے آنے کا امکان کم ہی تھا۔عام حالات میں توجیب رکشا سواری جیسی عیاشی کی متحمل نہ ہو سکتی تھی چونکہ جلد گھر پہنچنے کی مجبوری تھی اس لئے مزید سوچے بغیر رکشے والے کی طرف چل دیا جو مجھ سے کچھ فاصلے پر سڑک کے دوسرے کنارے پر کھڑا شکاری نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔جیسے ہی میں اس کی طرف بڑھا مجھے اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ فوراََ الرٹ ہوگیا اور کہنے لگا’’ جی بائو جی کہاں جانا ہے‘‘۔میں نے پوچھا’’ اقبال ٹائون چلو گے‘‘۔اس نے کہا’’ضرور بائو جی بیٹھیں ‘‘۔میں نے دوبارہ پوچھا’’کتنے پیسے لو گے‘‘۔کہنے لگا’’جو مناسب بنتے ہیں دے دیجیے گا‘‘۔میں نے کہا’’ پھر بھی پتا تو چلے؟‘‘۔رکشے والے نے کہا’’بائو جی بنتے تو زیادہ ہیں لیکن آپ چونکہ ایک شریف آدمی دکھائی دیتے ہیں اس لئے آپ سے صرف چار سو روپے لوں گا‘‘۔میں نے حیرت سے کہا’’چارسو روپئے!تم کرایہ بتا رہے ہو یا رکشے کی قسط؟‘‘۔رکشے والا ہنس کر کہنے لگا’’ بائو جی آپ مذاق اچھا کر لیتے ہیں لیکن آپ یہ بھی تو سوچیں میرے بھی بیوی بچے ہیں جن کے لئے میں آدھی رات کو سڑکوں پر مارا مارا پھر رہا ہوں‘‘۔میں نے کہا’’تو کیا میرے بیوی بچے نہیں ہیں یار خدا کا خوف کرو اور جائز جائز پیسے بتائو؟‘‘۔وہ کہنے لگا’’بائو جی!آپ کو بالکل جائز پیسے بتائے ہیں، رات کے اس وقت شملہ پہاڑی سے اقبال ٹائون تک مجھے اس پھیرے میں صرف دو سو روپئے بچیں گے آپ خود سوچیں اتنی مہنگائی میں یہ دو سو روپئے ز یادہ تو نہیں ‘‘ ۔میں نے کہا’’ کیوں دو سو روپئے کیوں بچیں گے؟ تمہارا رکشا اگر گیس کی بجائے پیٹرول پر بھی ہو پھر بھی یہاں سے اقبال ٹائون تک جانے میں دو سو کا پیٹرول تو خرچ نہیں ہوگا‘‘۔رکشے والے نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا’’ جناب میں نے گیس اور پیٹرول کی توبات ہی نہیں کی‘‘۔میں نے کہا تو پھر چارسو میں سے تمہارے حصے میں صرف دو سو روپئے کیسے آئیں گے؟‘‘۔وہ کہنے لگا’’ جناب وہ ایسے کہ شملہ پہاڑی سے اقبال ٹائون تک اگر ہم چھپتے چھپاتے بھی جائیں تو راستے میں کم ازکم تین سے چار ٹریفک پولیس والوں سے تو ضرور سامنا ہوگا۔ آپ پڑھے لکھے بندے ہیں آپ پچاس روپئے فی کس کے حساب سے چار ’’چونگیوں‘‘ کا حساب لگالیں اس حساب سے دو سو روپئے ’’پروانہ راہداری‘‘بنتے ہیں کہ نہیں‘‘۔میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا’’ کیا مطلب ،کیسا پروانہ راہداری اور کس بات کے پچاس روپئے‘‘۔اس نے کہا’’جناب آپ ٹیکس سمجھتے ہیں جو حکومت کے خزانے میں جاتا ہے‘‘۔میں نے کہا ’’ہاں کیوں نہیں سمجھتا‘‘۔وہ کہنے لگا’’جناب یہ بھی ایک قسم کا ٹیکس ہے جسے حکومتی بندے لیتے ہیں لیکن یہ حکومت کے خزانے میں جمع ہونے کی بجائے سیدھا حکومتی بندوں کی جیبوں میں جاتا ہے‘‘۔میں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’ یہ تو بڑی زیادتی ہے ‘‘۔وہ کہنے لگا’’جناب زیادتی تو ہے لیکن اس کے بغیر ’’سرکاروں‘‘ کانظام چلتا نہیں ہے‘‘۔میں نے کہا’’اگر تم اس زیادتی کو سمجھتے ہو توپھر تم نے اپنے رکشے کے پیچھے’’ٹریفک پولیس زندہ باد‘‘ کا سلوگن کیوں لکھوا رکھا ہے‘‘۔وہ کہنے لگا’’یہ تو جی میں نے ایک حربے کے طور پر لکھوایا تھا کہ شاید اس طرح یہ پولیس والے مجھے اپنا بندہ سمجھ کر معاف کردیں لیکن جناب اس چالاکی کا بھی مجھے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔پچھلے دنوں مجھے ایک ٹریفک وارڈن نے اشارے پر روک لیا اور رکشے پر لکھی یہ تحریر پڑھ کر کہنے لگا’’اوے تمہیں واقعی ہمارے محکمے سے محبت ہے یا ہمیں بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہو‘‘۔میں نے پکا سا منہ بنا کر کہا’’ جناب آپ دن رات سڑکوں پر عوام کی خدمت کرتے ہیں تو بدلے میںعوام کا بھی تو فرض ہے کہ آپ سے محبت کرئے ‘‘۔اس پر وہ ٹریفک وارڈن خو ش ہوگیا اور کہنے لگا’’اچھا پھر تو تم اپنے ہی آدمی ہو‘‘۔اس کے بعد وہ سارا دن مجھے اپنی فیملی کے ساتھ شہر بھر میں گھماتا رہا اور شام کو رکشا خالی کرتے وقت مجھے کچھ کرایہ دینے کی بجائے میری کمر پر ’’تھاپڑا ‘‘دے کر کہنے لگا’’یار تمہیں تو واقعی ٹریفک پولیس سے سچی محبت ہے‘‘ اور میں اس کے رکشے سے اترتے ہی وہاں سے فوراََ بھاگا مبادا اس کے ذہن میں اپنے حصے کے پچاس روپئے کا بھی خیال آجائے‘‘۔