کرونا ویکسینیشن‘ تاریخی پروگرام اور پنجاب 

کرونا کی وبا ہمارے عہد کا سب سے اہم اور بڑا عالمی واقعہ ہے۔تاہم ویکسین کے آجانے سے دنیا میں یہ وبا اب تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ اس عظیم کامیابی کا سہرا سائنسدانوں خصوصی طور پر وائرولوجسٹس اور مائیکرو بیالوجیسٹس کے سر پر ہے۔ یہ سال کرہ ارض پر شروع ہونے والی سب سے بڑی ویکسینیشن مہم کے حوالے سے بھی تاریخ میں لکھا جائیگا۔وبا کی پہلی دو لہروں کے اعدادوشمار کے مطابق مجموعی طور پر سامنے آنے والے کیسز میں اکتیس سے پینتالیس سال کی عمر کے لوگوں میں مختلف مراحل پر شرح تیس سے پینتیس فی صد کے درمیان رہی۔ پینتالیس سے ساٹھ سال کے عمر کے لوگوں میں اکیس سے چوبیس فی صد کے درمیان اور اکسٹھ سے پچھتر سال کی عمر کے لوگوں میںشرح دس فی صد تک رہی۔ جبکہ سولہ سے تیس سال کے عمر کے لوگوں میں اسکی شرح تیس فی صد کے لگ بھگ رہی ۔ مجموعی طور پر تقریباًستر فی صد سے زائد مریضوں کا تعلق پینتالیس سال سے کم عمر پر مشتمل ہے۔ تمام نئی ویکسینز، ماڈرنا، بائیو ان ٹیک، اسٹرا زینکا، سائینو فارم، سپوتنک پانچ، نوا ویکس، کوویکس اور دیگر ویکسیز کے نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں۔تاہم بڑھتی ہوئی عالمی طلب کے باعث ترقی پذیر ممالک کورسد کی فراہمی میں تاخیر کا سامنا ہے۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ جب تک سب محفوظ نہیں کوئی بھی محفوظ نہیں۔ ہم نے فرنٹ لائن ورکرز اور ہیلتھ کئیر ورکرز کی ویکسینشن کے بعد ساٹھ سال سے زائد عمر کے لوگوں کی ویکسینیشن کا آغاز کردیا ہے اور یہ مہم اس وقت چوتھے ہفتہ میں ہے۔موبائل فون پر پن کوڈ کے ذریعے ساٹھ سال سے زائد عمر کے لوگوں کی ویکسینینشن جاری ہے جبکہ پینسٹھ سال سے زائد عمر کے لوگ محض شناختی کارڈ دکھا کر مفت ویکسینیشن کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مرحلہ وار تمام آبادی کو ویکسین کی فراہمی کا عمل بلا تعطل جاری رہے گا اور اس سال کے آخر تک امید ہے ہم زیادہ تر آبادی کو ویکسینیٹ کر پائیں گے۔ مجھے پورا اعتماد ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں ویکسین کی مہم کے حوالے سے ہماری تیاری بہت بہتر ہے۔ ہمیں ویکسین مہمات کا خاصا تجربہ ہے۔ ویکسین کی طلب اور رسد ، کولڈ چین، سٹوریج، تربیت یافتہ افرادی قوت ابلاغ اور دیگر عوامل کے حوالے سے ہمارے پاس پورا نظام موجود ہے۔ سروس ڈیلیوری اور رسد دونوں حوالوں سے جامع پلان تیار ہیں تاہم اس مہم کے حجم ، عوامی خدشات اور ویکسینز کے بارے میں ہمارے عمومی رویوں کے تناظر میں یہ بات طے ہے کہ ابلاغ ہی سب سے بڑا چیلنج ثابت ہو گا۔ تحقیقی ادارے IPSOS کے حالیہ سروے کیمطابق تقریباً چالیس فی صد کے قریب لوگ فوری طور پر ویکسین لگوانے کو اہم نہیں سمجھتے۔ اس شرح سے واضح ہے کہ ابلاغ کتنا بڑا چیلنج ہوگا جس کے پیش نظر ہماری تکنیکی ٹیم کو مطلوبہ تیاری کرنے کا کہا گیا ہے۔ وبا کے باعث ہم اپنے نظام میں کچھ بنیادی اصلاحات لانے میں کامیاب ہوئے۔ جیسا کہ بچاؤ ، تشخیص اور علاج کی مربوط صلاحیت جو بین القوامی ہیلتھ ریگولیشنز کا حصہ بھی ہے اور پنجاب ہیلتھ سیکٹر سٹریٹجی کا بھی۔ یہ بات قابل افسوس ہے کہ گزشتہ حکومت نے کرائیسز مینجمنٹ اور وبائی ایمر جنسیز کی کوئی تیاری نہیں کی تھی۔ ہم نے اس بڑے چیلنج کو ایک تاریخی موقع سمجھا ۔ آج نظام میں دونوں موجود ہیں۔ محض نو دنوں میں ایکسپو سنٹر میں ایک ہزار بستروں پر مشتمل ہسپتال کا آغازکچھ ایسا ہی چیلنج تھا۔ گزشتہ سال اسے معمولی علامات والے مریضوں کو قرنطینہ کیلئے استعمال کیا گیا جبکہ اس سال اسی سنٹر کو ایک بہت بڑے ویکسینیشن سنٹر کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے صرف اس سنٹر پر پچاس ہزار کے قریب بڑی عمر کے لوگوں اور ہیلتھ ورکرز کواب تک ویکسینیٹ گیا ہے۔ اسی طرح گزشتہ سال مارچ میں ہمارے پاس محض تین بائیو سیفٹی لیبز اور روزانہ ٹیسٹ کی صلاحیت محض چھے سو تھی۔ اس وقت ہم بائیس بائیو سیفٹی لیبز بنا چکے اور ٹیسٹس کی صلاحیت کوپچیس ہزار سے زائد بڑھا چکے ہیں۔اسی طرح کرونا اور دیگر وجوہات کی بنا پر وبا سے پہلے اور وبا کے دوران ہونیوالی اموات کی شرح پر بھی تحقیق جاری ہے۔ مختلف سروے ، اعشاریوں اور ڈیسک تجزئے کے مطابق میانی صاحب لاہور کے قبرستان کے علاوہ دیگر جگہوں سے کرونا کے باعث اموات کے اعدادو شمار میں بہت واضح فرق سامنے نہیں آیا۔ مکمل تحقیق ابھی جاری ہے۔ وبا کے دوران ہم نے کچھ اہم سبق بھی سیکھے جن میں سب سے پہلا یہ تھا صحت، معیشت اور انسانی ترقی آپس میں گہرے اور پیچیدہ انداز میں جڑے ہوئے ہیں اور انسانی ترقی کی تمام جہتیں صحت ہی سے پیوستہ ہیں ۔ ہمیں ترقی کے اہداف کو مربوط انداز میں حاصل کرنے کیلئے اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز کے ساتھ منسلک ہو کرچلنا ہوگا۔
دوسر ا اہم نکتہ یہ ہے کہ صحت عامہ محض انفرادی یا حکومتی مسئلہ نہیں۔ یہ معاشرہ کی مجموعی ذمہ داری ہے۔ عہد جدید کے مسائل مثلاًوبائی امراض، کرونا، پولیو، مریضوں سے بھرے ہسپتال، خون سے پھیلنے والی بیماریاں، ماحولیاتی تبدیلیاں، تحقیق و ترقی، سوشل سیفٹی نیٹ اوردیگر معاملات نجی اداروں، حکومت اور تعلیمی اداروں سے باہم پیوستہ ہیں۔ حکومت کا کام سب کے اشتراک کو مربوط اور مظبوط کرنا ہے۔ 
تیسرا اہم نکتہ دنیا میں تشخیص، ٹیلی میڈیسن ، تربیت، بائیو فارنزک، جینومکس، مریضوں کے ریفرل نظام کا نفاذ اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ہونے والی ترقی سے ہم آہنگ ہونا ہے۔ اس وبا سے ہم نے سیکھا کہ اہداف کو وقت سے پہلے حاصل کرنا کتنا اہم ہے۔ 
چوتھا اہم نکتہ اعدادوشمار اور ثبوت وشواہد پر مبنی فیصلہ سازی کے نظام کو فروغ دینا ہے جس کے لیے اعلیٰٰ کوالٹی کی تحقیق بہت ضروری ہے۔ دو سال پہلے کئے گئے اقدامات کی بدولت الحمدللہ اس سال ہماری جامعات میں ماہرین صحت کی جانب سے تحقیقی مقالوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہماری جامعات ، ہسپتالوں اور ٹیچنگ اداروں میں تکنیکی تعاون بڑھاکر تحقیق کو مزید بہتر بنانے پر میری ٹیم کام کر رہی ہے۔
پانچواں اہم نکتہ عام حالات میں ایمر جنسیز سے نپنٹے کی صلاحیتوں کی تیار ی ہے۔ اس مقصد کے لیے افرادی قوت کی فراہمی اور تربیت،ہائی ڈپنڈنسی یونٹس، انتہائی نگہداشت کے وارڈز، تشخیص اور دیگر صلاحیتیں ہیں۔ اس وبا سے پہلے ہم بہت پیچھے تھے ۔تاہم گزشتہ سال ہم یہ سب بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ 
سب سے اہم بات یہ ہے کہ وبا ابھی ختم نہیں ہوئی۔تیسری لہر پوری شدت سے حملہ آور ہے۔ بزرگ ضرور ویکسین لگوائیں۔ ویکیسنز کی شکل میں ہمیں عارضی کامیابیاں ضرور ملی ہیں لیکن وائرس سے ہماری جنگ جاری رہے گی ۔ وائرس مستقل اپنی ہیئت بدل رہا ہے اور اس کی نئی نئی شکلیں سامنے آرہی ہیں۔ اس جنگ کو ہمیں ہر حال میں جیتنا ہے اور ایسا صرف تبھی ممکن ہے جب ہماری علمی رفتار وائرس کی ارتقائی رفتار سے تیز ہو ۔

ای پیپر دی نیشن