سید شعیب شاہ رم
shoaib.shahram@yahoo.com
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جلد پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ وزیر اعظم نے بھی حال ہی میں بڑی سیاسی جلسہ کرکے طاقت کا مظاہرہ کیا اور اپوزیشن کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ وزیر اعظم کی جانب سے سرپرائز دینے پر سیاسی حلقوں میں بہت بحث جاری ہے۔ لیکن اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو ایک بڑا سرپرائز دیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تصدیق کی ہے کہ متحدہ اپوزیشن اور ایم کیو ایم کے درمیان معاہدہ طے پاگیا ہے۔ بلاول بھٹو کے مطابق ایم کیو ایم تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دے گی۔ تاہم اس فیصلے کو ابھی تک حتمی طور پر توثیق ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی اور پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے گی۔ توثیق کے بعد ایم کیو ایم کے ووٹ اپوزیشن کے حق میں چلے جائیں گے۔ تاہم تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ حکومت کی اتحادی ایم کیو ایم کے وزراء جس میں وزیر قانون فروغ نسیم اور وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے اپنے عہدوں سے استعفے وزیر اعظم کو بھیجوا دئیے ہیں۔ جس کی تصدیق وفاقی وزیر فروغ نسیم نے کردی ہے۔ ادھر ایم کیو ایم کے رہنما سینیٹرل فیصل سبزواری نے بھی توثیق کی ہے کہ ایم کیو ایم اور اپوزیشن کے درمیاں معاملاے طے پاگئے ہیں۔ تاہم حتمی فیصلہ رابطہ کمیٹی کرے گی۔ ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کی جانب سے آج اعلان کردیاجائیگا کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ جائیں گے یا حکومت کی حمائتی رہیں گے۔ لیکن قوی امکان یہی نظر آرہا ہے کہ ایم کیو ایم اپوزیشن کے ساتھ جائے گی۔ایم کیو ایم نے یہ فیصلہ کیوں کیا، بہت سے لوگ اسے سیاسی بلیک میلنگ قرار دے رہے ہیں جبکہ حقیقت میں موجودہ حکومت نے کراچی سے کیا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد کراچی میں ایک دن نہ گزارا۔ انہوں نے وزیراعظم بننے سے پہلے انتخابی مہم میں کراچی کی عوام سے جو وعدے کئے تھے وہ پورے نہ ہوسکے۔ چاہے 10 لاکھ نوکریوں کی بات ہو یاایک کروڑ گھر بنانے کی بات۔ کراچی کے انفرااسٹرکچر ہو یا سرکلر ریلوے ، حکومت کا کوئی وعدہ وفا نہ ہوسکا۔ جس پر کراچی کی عوام بھی حکومت سے منحرف ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی تمام سیاسی جماعتیں جس میں ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی اور سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی وزیر اعظم کی جانب سے کراچی کو نظر انداز کئے جانے پر کھل کر احتجاج ریکارڈ کرا چکے ہیں۔ ایسی صورت میں کہ جب کراچی کی عوام حکومت سے ناامید ہوچکی ہے کسی سیاسی جماعت کا حکومت کے حق میں فیصلہ دینا سیاسی خود کشی کے برابر ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم نے اپوزیشن کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔
اس فیصلے کے بعد تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔ ایم کیو ایم کی اپوزیشن کو حاصل ہونے والی حمایت کے بعد اپوزیشن کی تعداد اسمبلی میں 177 تک پہنچ جائے گی اور حکومت کے پاس صرف 164 اراکین رہ جائیں گے۔ اس موقع پر یہ بھی بات واضح ہورہی ہے کہ اپوزیشن کو پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی حمایت کی ضرورت نہیں۔ لیکن اپوزیشن اس وقت پوری قوت کے ساتھ حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم بھی اپوزیشن پر شدید برہمی کا کھلے عام اظہار کر رہے ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ تحریک عدم اعتماد 4 اپریل کو اسمبلی میں پیش کی جائے گی۔ لیکن اس سے پہلے سیاسی جوڑ توڑ اور خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے، تمام سیاسی جماعتیں ملکی سیاست میں اس وقت بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔ اپوزیشن کی پوری کوشش ہے کہ حکومت کو گرایا جائے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت گھر چلی گئی تو ملک کا نظام کس طرح چلے گا۔ کیا پی ٹی آئی سے ہی کسی کو وزیر اعظم نامزد کیا جائے گا، یا اپوزیشن اپنا امیدوار پیش کرے گی۔ دونوں صورتوں میں ملکی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے اور ملک میں تجارتی سرگرمیاں بالکل منجمد ہوکر رہ گئی ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، حتمی فیصلہ ہونے کے بعد کیا پاکستان ترقی کرے گا۔ کیا ملکی معیشت کی شرح نمو 5 فیصد رہے گی۔ کیا عوام کی جان مہنگائی سے چھوٹ جائے گی۔ شاید اس کا فیصلہ اب 4 اپریل کو عوام کے سامنے آئے گا لیکن اس سے پہلے سیاسی پارہ بہت چڑھ چکا ہے۔