سابق وزیراعلیٰ پنجاب  کی "گڈ گورنس" آج وزیراعظم  کو  نااہلی کے دھانے پر لے آئی 

میاں غفار
پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں 71 سال بحرانی اور بے سکونی ہی سیاست پر غالب رہی۔ یہاں سے بادشاہت کا کلچر ختم ہی نہ ہو سکا اور یہاں تو قوانین بھی اکثر اوقات  حکمرانوں کی ایما پر ہی بنتے رہے، چاہے وہ حکمران جمہوری طریقے سے اقتدار میں آئے یا پھر مارشل لا کے ذریعے یہاں ہر بااختیار قانون سے بالا تر ہی رہا۔ پاکستان میں مارچ کے شروع سے جو سیاسی اور اخلاقی اقدار کی پامالی کا مارچ شروع ہوا ہے اس نے بہت سے چہروں پر سے نقاب الٹ کر رکھ دیئے ہیں کوئی بھی سیاسی جماعت یا انفرادی شخصیت پاکستان کے بارے میں سوچ نہیں رہی۔ حکومتیں بنانے اور گرانے کی لئے منڈیاں پہلے بھی لگتی تھیں مگر اس بار تو سیاسی اخلاقیات کا جنازہ ہی نکل گیا ہے اور سٹاک مارکیٹ کی طرح ریٹ نکلے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے سے محض دعووں کی حد تک، کہ ابھی تک کوئی نوٹیفکیشن سامنے نہیں آیا، سبکدوش ہونے کے بعد سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار جو کہ اب روسا میں شمار ہو چکے ہیں اور جن کی "گڈ گورنس" آج وزیراعظم عمران خان کو بھی نااہلی کے دھانے پر لے آئی ہے انہوں نے اقتدار میں آ کر جو غلط فیصلے کئے وہ ہر کسی کے علم میں تھے سوائے وزیراعظم پاکستان کے، کہ جن کو لمحہ بہ لمحہ رپورٹ دینے والی کئی سرکاری ایجنسیاں موجود ہیں اور یہ ایجنسیاں اپنے فرائض بخوبی سرانجام دیتی رہی ہیں مگر جناب وزیراعظم نے ہر رپورٹ کے جواب میں عثمان بزدار کی تعریفوں کے پل باندھنا اپنی انا کا مسئلہ بنائے رکھا ۔
وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے بعد جب عمران خان نے اپنی کابینہ کا انتخاب کیا تو ایک سینئر تجزیہ کار سے میں نے سوال کیا کہ کیا یہ کابینہ عمران خان کی ہے۔ وہ زبیدہ جلال اور چند اور نام لے کر کہنے لگے کہ عمران خان تو ان کو جانتے بھی نہیں ہوں گے لہٰذا یہ کابینہ عمران خان کی نہیں ہو سکتی بلکہ انہیں بنی بنائی کابینہ ملی ہے۔ ساڑھے تین سال کے اقتدار کے دوران عمران خان کرپٹ سسٹم کے خلاف لڑتے رہے مگر اپنے اردگرد کرپٹ لوگوں کے حصار کو نہ توڑ سکے بلکہ یہ مضبوط ہوتا گیا۔ مرکز اور صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے قیام میں سب سے نمایاں کردار جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے علیحدہ صوبے کے قیام کے نعرے پر ملنے والے ووٹوں کا تھا کبھی ملتان مسلم لیگ کا گڑھ جانا جاتا تھا مگر 2018 کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی تمام نشستیں پاکستان تحریک انصاف نے جیتیں جو کہ مسلم لیگ کے اس گڑھ میں بہت بڑی دراڑ تھی۔ 
پانچ سالہ اقتدار کے ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود جنوبی پنجاب علیحدہ صوبے کا قیام تو درکنار اس خطے کے عوام کی غالب اکثریت کی خواہش کے برعکس اس مجوزہ صوبے کے صدر مقام ہی کو ملتان اور بہاول پور میں الجھا دیا گیا اور صورت حال یہ بنا دی گئی کہ علیحدہ صوبہ کیا قائم ہونا تھا اس کے صدر مقام پر ہی تنازعہ طویل ہوتا گیا۔ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی جس کی سفارشات میں بھی ابہام ہی رہا اور جنوبی پنجاب کے لئے علیحدہ سیکرٹریٹ کے قیام کے باوجود معاملات لاہور ہی کے کنٹرول میں رہے اور یہاں کے سیکرٹریٹ میں بیٹھے لوگ ہر فیصلے کے لئے لاہور ہی کی طرف دیکھتے رہے۔ ساڑھے تین سالہ دور میں جنوبی پنجاب میں رحیم یار خان اور راجن پور کے درمیان کئی سال سے تعمیر شدہ پل کی دونوں اطراف میں اپروچ روڈز کے لئے فنڈز ہی جاری نہ ہو سکے حالانکہ ابوظہبی کی امداد سے اس پل کا تمام تر کنکریٹ سٹریکچر مکمل ہو چکا ہے۔ اس خطے کے لوگوں کو بہت سی امیدیں تھیں کہ گراس روٹ پر ترقیاتی کام ہوں گے مگر ایسا نہ ہو سکا اور معاملات سابق وزیر اعلی شہباز شریف کی طرز پر میگا پراجیکٹس پر مرکوز رہے۔آج صورتحال یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے اکثر اضلاع میں رابطہ سڑکیں مکمل طور پر ٹوٹ چکی ہیں۔ 
ان ساڑھے تین سالوں میں پنجاب میں ترقیاتی کاموں اور عوامی فلاح کے امور کے التوا کا شکار ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ رہی کہ کسی بھی انتظامی آفیسر کو کسی بھی ضلع میں زیادہ عرصہ تعینات ہی نہ ہونے دیا گیا اور بعض افسران تو ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں تبدیل ہوتے رہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ ابتر صورتحال ڈیرہ غازی خان ڈویڑن کی رہی جہاں سے قبائلی علاقے کے وزیراعلیٰ پنجاب از خود منتخب ہو کر آئے تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقوں میں لادی گینگ کی بربریت کا نوٹس لیا اور اعلیٰ سطح پر فیصلہ ہوا کہ اگر خیبر پختونخواہ کے بعض قبائلی اور بندوبستی علاقے صوبائی سیٹ  اپ میں ضم ہو سکتے ہیں تو پھر ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقے میں حکومت پنجاب کے زیر انتظام دے دئیے جائیں اور بارڈر ملٹری پولیس کو پنجاب پولیس میں ضم کر دیا جائے۔ یہ فیصلہ ہو چکا تھا اور بس چیف سیکرٹری کی طرف سے آفس آرڈر جاری ہونا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی مداخلت سے سرداری نظام بچ گیا اور پھر وہی ہوا کہ ابھی گزشتہ ہفتے ہی بارڈر ملٹری پولیس کے تھانہ کشوبہ پر لادی گینگ کا دھاوا ہوا اور بی ایم پی کا عملہ تھانہ چھوڑ کر بھاگ گیا۔ لادی گینگ نے تھانہ کشوبہ جو کہ سردار عثمان بزدار کے آبائی علاقے سے 15 کلومیٹر اور ڈیرہ غازی خان سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، کی عمارت میں داخل ہو کر کمروں کی تلاشی لی۔ فلم بنائی اور سوشل میڈیا پر بھی اپ لوڈ کر دی اس سے بڑھ کر حکومت پنجاب کو کھلا چیلنج اور ہو ہی کیا سکتا ہے۔ اس واقعہ کے بعد دس دن تک سردار عثمان بزدار وزیراعلیٰ رہے مگر انہوں نے نہ اس واقعہ کا نوٹس لیا اور نہ ہی تادم تحریر کوئی کارروائی دیکھنے اور سننے کو ملی۔ باڈر ملٹری پولیس کے کمانڈنٹ نے اشک شوئی کے لئے نوٹس لیا اور بس۔پنجاب میں اگر سپیکر  چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلی کے طور پر اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ وزیراعظم کے لئے بہت بڑی سپورٹ ہو گی اور ویسے بھی سابق صدر آصف علی زرداری کا پنجاب کے حوالے سے سب سے بڑا مطالبہ ہی یہ تھا جو کہ عمران خان نے پورا کر دیا۔ پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کا پارٹی ووٹ سے ہٹ کر اپنے ذاتی تعلق اور برادری کا بھی ایک بڑا حلقہ اثر ہے اور سابقہ دور میں پرویز الہٰی کی بطور وزیراعلیٰ دوست نوازی سے پنجاب کے سیاسی حلقے آگاہ ہیں۔ اگر چودھری پرویز الٰہی پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ساڑھے تین سال کے وقفے کے بعد پنجاب مرکز کو سپورٹ کرنے کے ایک مرتبہ پھر قابل ہو جائے گا۔ رہا سردار عثمان بزدار کا معاملہ تو وہ بغیر کسی مضبوط دھڑے اقتدار میں آئے، اقتدار کو انجوائے کرتے رہے اور اب باقی زندگی سکون سے سابق وزیراعلیٰ کے پروٹوکول میں گزار دیں گے۔۔۔

ای پیپر دی نیشن