چوہدری پرویز الٓہی وزیراعلٓی کے منصب پر فائز ہوجائیں گے؟

ندیم بسرا 
یہ بات تو طے ہو چکی ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے قبل اور اپوزیشن کے دباو کے بعد عمران خان نئے الیکشن کرانے کا فیصلہ کر چکے تھے،اسی کی ایک کڑی یہ تھی کہ عمران خان خود جلسوں کے لئے میدان میں نکل آئے تھے  ۔ملکی سیاسی صورت حال میں غیر معمولی حالات ہونے کے بعد تو  اس کے بعد ہی وزیراعلی پنجاب کو تبدیل کیا گیا ۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات تیزی سے زیر بحث ہے کہ عمران خان ’’بعض حلقوں ‘‘میں میںاس خواہش کا اظہار کیا یا یہ پیغام اپنے قریبی لوگوں کے ذرئعے ان لوگوں تک پہنچایاکہ انہیں اپوزیشن کی جانب سے بجٹ تک کا وقت لیکر دیا جائے اور بجٹ کے بعد عمران خان خود ہی اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن کا علان کردیں گے ۔یہ تجویز خود پی ٹی آئی کے لوگ مان رہے ہیں کہ دی گئی تھی مگر اس وقت تک کافی دیر ہو چکی تھی ، تجویز اپوزیشن تک  بعض ’’اہم شخصیات ‘‘ کے ذرئعے دی گئی ،جہاں پر عمران خان کی یہ خواہش  کا راستہ تلاش کیا گیا، مگر اپوزیشن نے اس تجویز کو یکسر رد کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد پیش کردی اور عمران خان کی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کردیا، جب سارے راستے بند ہوگئے اور اپوزیشن کے ساتھ معاملات طے نہ  ہوئے تو سرپرائز عثمان بزدار کا استعفی لینا نکلا۔ پنجاب کا سربراہ  مسلم لیگ ق کو  وزارت اعلی کی صورت میں آخری راستہ ہی ٹھہرا۔اب ایک اور جھٹکا وفاقی کابینہ میں شامل متحدہ قومی موؤمنٹ (ایم کیو ایم ) کے دو وفاقی وزرا فروغ نسیم اور امین الحق کے وزارتوں سے مستعفیٰ ہونے کے اعلان کے بعد لگا جب انہوں  نے  اپنے استعفے وزیراعظم آفس میں جمع کروائے۔امین الحق کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایم کیوایم نے متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب وزیر رہنے کا جواز باقی نہیں رہتا۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا  کہ میں اور امین الحق استعفی دے رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم آفس تک میرا استعفیٰ پہنچ جائے گا۔اب حکومت کے ساتھ آخری دم تک رہنے والے وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید احمد ان کا یہ کہنا کہ وزیراعظم عمران خان کو جلد الیکشن کروانے کی پہلے ہی تجویز دی تھی۔نوائے وقت میں شائع ہونے والی خبروں اور تجزیوں کی تصدیق کر رہا ہے ۔اب بات یہ ہے کہ ’’نیوٹرل ‘‘ رہنے والے کیا سوچتے ہیں کیا اس سیاسی ہنگامہ آرائی میں کوئی خیر کی خبر نکلتی ہے یا نہیںیا وہ کسی کے فون بھی نہیں سنیں گے  ۔یہ چند روز میں سب واضح ہو جائے گا ۔اب پنجاب میں چودھری پرویز الہی کے وزارت اعلی کی بات کرتے ہیں تو یقیننا ماضی میں چودھریوں کے پراجیکٹ آج بھی ان کے کامیاب دور کی یاد تازہ کرتے ہیں ۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کیا چودھری پرویز الہی کو بطور وزیراعلی تسلیم کر لیں گے ؟ ۔کیا ترین گروپ ، علیم خان سمیت پی ٹی آئی مسلم لیگ ق کی سپورٹ کریں گے ؟۔یا وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الہی کی نامزدگی کے بعد سیاسی حلقوں کا یہ شور کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ’’عبدالعلیم خان‘‘ کو پنجاب میں وزارت اعلی کے لئے نامزد کردے گی ۔ اور حمزہ شہباز کا نام وزارت اعلی پنجاب کے لئے نہیں دیا جائے گا یہ بات  واضح ہوجائے گی ۔تو یہ تاثر غلط نہیں ہوگا کہ ن لیگ اور پی پی وفاق کے بعد پنجاب بھی پی ٹی آئی سے چھیننے کی کوشش کریں گی۔اب ان کا امیدوار اگر علیم خان ہوگا تو بظاہر  علیم خان کی پوزیشن کافی کمزور ہے۔چودھریوں کے دور میں وہ وزیر صوبائی رہے ہیں کیا علیم خان ماضی کے احسانات کو یاد کرتے ہوئے اپنے آپ کو چودھریوں کے ساتھ ہی   رہیں گے َ یا نہیں ؟ ۔چند ہفتے قبل  علیم خان نے اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لئے ہی ترین گروپ کا سہار ا لیا تھا مگر علیم خان گروپ کی وزارت اعلی کے شور کے بعد ترین گروپ نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، جس کے بعد علیم خان کی پوزیشن بظاہرکمزور ہوگئی بحر حال وہ اس معاملے میں اہم کردار ہیں۔ اب چودھری پرویز الہی اب وزارت اعلی کے امیدوار ہیں تو پنجاب اسمبلی کے تین سو اکتر کے ایوان میں ایک سو چھیاسی ووٹ لینا چودھری پرویز الہی کے لئے کتنا آسان اور کتنا مشکل ہوگا؟ ۔اس پر حتمی رائے نہیں دی جاسکتی، مگر وہ عمران خان سے پنجاب کے سیاسی مسائل حل کرنے کا وعدہ بنی گالہ میں کر کے ہی آئیں ہیں ۔اگر ترین گروپ اور پی ٹی آئی چودھری پرویز الہی کوسپورٹ کرتے ہیں تو پرویز الہی پنجاب میں ن لیگ کے متعدد اراکین کو ساتھ ملا سکتے ہیں ۔موجودہ حا لات میں جہانگیر ترین بھی منظر سے غائب ہیں حالانکہ پنجاب اور وفاق سے پی ٹی آئی کی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والے ترین گرو پ کافی متحرک ہیں ۔عثمان بزدار کی حکومت سے ہوا ترین گروپ نے نکالی ،سربراہ ترین گروپ  کا تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آرہا ۔جس کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ بے چینی بڑھ گئی ہے کہ ترین گروپ پی ٹی آئی کی اس مشکل کوکم کریں گے یا بڑھا دیں گے ؟۔کچھ نہیں کہا جاسکتا ؟۔ مگر وہ بزدار کو وزارت اعلی سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئے ہیں یہ حقیقت ہے۔ جہانگیر ترین علاج کی غرض سے لندن ہیں ،ان کی واپسی کا کوئی شیڈیول نہیں بتایا گیا ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک لندن ہی ہیں کسی بھی وقت پاکستان پہنچ سکتے ہیں تمام فیصلے جہانگیرترین کے ساتھ ہی منسوب ہیں ۔مسلم لیگ ق کو اپنا گھر بھی ٹھیک کرنا ہوگا کیونکہ عمران خان کی جانب سے چودھری پرویزالہی کو وزیراعلی نامزد کئے جانے کے فورا بعد مسلم لیگ ق کے ایم این اے طارق بشیر چیمہ کے استعفی کی خبروں اور عمران خان کو ووٹ نہ دینے کے اعلان پر کئی سولات اٹھ رہے ہیں ۔طارق بشیر چیمہ کے اس بیان کے بعد چودھری شجاعت حسین کا بیان آیا کہ وہ مسلم لیگ ق کے سربراہ کے ساتھ اپنی فیملی کے سربراہ بھی ہیں اور انہی کی ا جازت سے سب فیصلے کئے جاتے ہیں ،جس سے یہ اندازاہ ہورہا ہے طارق بشیر چیمہ فیکٹر قابو ہو جائے گا ۔مسلم لیگ ق کا ماننا ہے کہ چودھری شجاعت حسین ایک وضع دار شخصیت ہیں اور وہ اپنی جماعت میں تمام فیصلے ملکی مفادات اور عوامی مفادات کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں ۔آئندہ سیاست میں کیا ہوگا کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ؟۔کل کے دوست آج کے مخالف ہورہے ہیں ۔دوسری جانب اب ق لیگ کو وزارت اعلی کے اعلان پر اور  تحریک عدم اعتماد کی تحریک کے دوران سب سے بڑا سر پرائز آصف علی زرداری کو ملا ہے، کیونکہ مسلم لیگ ن سے زیادہ پیپلز پارٹی خصوصا آصف علی زرداری کو یقین تھا کہ مسلم لیگ ق حکومت کے اتحاد سے علیحدہ ہوجائے گی اور وہ پی ڈی ایم کا ساتھ دے گی اورآصف علی زرداری  کے قریبی لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اس کھیل کی بازی کو پلٹ دیں گے۔اب خود پی پی کے رہنما یہ بات کرتے ہیں کہ  مسلم لیگ ن  کی قیادت ق لیگ سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں تھی ،خصوصا میاں نواز شریف اور مریم نواز اس کے مخالف تھے مگر میان نواز شریف کو ذاتی گارنٹی دے کر سب سے زیادہ قائل اور دلائل  آصف علی زرداری نے ق لیگ کے حق میں دئے ،اورکئی برسوں کے بعد  شہباز شریف کو چودھری بردرآن سے ملاقات کے لئے ان کے گھر بھیجا گیا اور انہیں کی خواہش پر وہ مسلم لیگ ق سے ملیں ۔ مگر عمران خان کی چودھری پرویز الہی کو وزارت اعلی پر قائل کرکے  سب سے زیادہ حیرانگی میں مبتلا خود آصف علی زرداری  کو کیا ۔آصف علی زرداری خود سیاسی کھلاڑی ہیں ان کے ساتھ ہاتھ ہوگا وہ ایسا سوچ نہیں رہے تھے ،اب آصف علی زرداری کی پوزیشن بھی اس حوالے سے کمزور ہوئی ہے ، وہ مسلم لیگ ق  سے کھل کر گلے شکوے بھی کررہے ہیں کہ مسلم لیگ ق نے ہمارے ساتھ ہاتھ کیا اور عین موقع پر جا کر عمران خان کے ساتھ مل گئے ۔اب اس کھیل میں کس کے پاس کون سے پتے ہیں یہ کب شو ہونگے ؟۔اس کا وقت تعین ہونے جارہا ہے مگر پنجاب کی صورت حال سے لگ رہا ہے کہ چودھری پرویز الہی وزیراعلی کے منصب پر فائز ہو جائیں گے اورآئندہ الیکشن میں میں پی ٹی آئی اور ق لیگ پھر اتحادی الییکشن لڑین گے اور مستقبل میں پنجاب کی وزارت اعلی ایک بار پھر چودھریوں کے پاس ہوگی 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...