کراچی(کامرس رپورٹر)بزنس مین گروپ کی قیادت،کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) اور ساتوں ٹائون ایسوسی ایشنز کے صدور نے ضلع گھوٹکی میں واقع سچل گیس پروسیسنگ کمپلیکس (ایس جی پی سی) سے سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کو ابتدائی طور پر 20 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کرنے اوررواں سال کے دوران اسے بڑھا کر 110 ایم ایم سی ایف ڈی کر دینے کے حوالے سے جاری کردہ اعلامیے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پوری تاجر برادری اس غیر منصفانہ اقدام پر مشتعل ہے کیونکہ یہ مکمل طور پر پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 158 کے خلاف ورزی ہے اور ایک انتہائی غیر دانشمندانہ اقدام ہے باالخصوص ایسی صورتحال میں جب کراچی کی صنعتیں گزشتہ 4 ماہ سے گیس کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ایک مشترکہ بیان میں چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا، صدر کے سی سی آئی محمد ادریس، صدر سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری عبدالرشید، صدر کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری سلمان اسلم، صدر فیڈرل بی ایریا ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری ہارون شمسی، صدر نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری فیصل معیز ، صدر بن قاسم ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری الٰہی بخش، صدر سائٹ سپر ہائی وے ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری عامر حسن لاری اور صدر لانڈھی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری نثار پلہ نے نشاندہی کی کہ آئین کے آرٹیکل 158 میں کہا گیا ہے کہ وہ صوبہ جس میں قدرتی گیس کا کنواں واقع ہے۔ اسے اول دن سے اپنی ضرورت کو پورا کرنے کا مکمل اختیار ہے اور اسے اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے حوالے سے پاکستان کے دیگر علاقوں پر سبقت حاصل ہوگی لہٰذا آرٹیکل 158 کی روشنی میں ہم اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سیکریٹری توانائی کی جانب سے ایک سنگین غلطی ہے جنہوں نے وزارت توانائی کی نمائندگی کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ میں مؤقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت کو قدرتی گیس لینے کے لیے صوبہ سندھ سے کسی اجازت کی ضرورت نہیں جسے ججوں نے بھی آئین کے آرٹیکل 158 کے پیش نظر حیران کن پایا۔انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ آرٹیکل 158 کی سراسر خلاف ورزی سے یہ واضح پیغام دیا جارہا ہے کہ وفاقی حکومت کراچی کی صنعتوں کو آئین پاکستان کی طرف سے دیے گئے ان کے آئینی حق سے انکار کرکے ہمیشہ کے لیے بند کرنا چاہتی ہے۔گھوٹکی سے نکالی جانے والی گیس سندھ کے لوگوں کی ہے لہٰذا انہوں نے زور دیا کہ وفاقی حکومت کو آئین کی پاسداری کرنی ہوگی اور وہ ایس ایس جی سی ایل کی ڈیمانڈ کو مکمل طور پر پورا کیے بغیر ایس این جی پی ایل کو گیس دینے سے گریز کرے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ کئی سالوں سے دونوں گیس کمپنیوں کے درمیان کسی بھی نئی گیس فیلڈ کی تلاش کی صورت میں تقسیم کا ایک فارمولا موجود ہے مگر گھوٹکی میں واقع سچل گیس پروسیسنگ کمپلیکس کے معاملے میں اس فارمولے کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کے آئین کے تحت گھوٹکی سے نکالی جانے والی گیس سندھ کو دی جائے تاکہ صوبے کی صنعتوں بالخصوص کراچی کی صنعتوں کو گیس کے بحران سے بچایا جا سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں گزشتہ 4 ماہ سے مسلسل گیس کی عدم دستیابی سے صنعتی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی ہے کیونکہ پورے موسم سرما میں کراچی کی صنعتوں کو نہ تو قدرتی گیس اور نہ ہی آر ایل این جی فراہم کی گئی جس نے بلاشبہ نہ صرف صنعتوں کو بلکہ معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سال کراچی کا برآمدی حصہ 54 فیصد رہا جو اس سال کم ہو کر 50 فیصد پر آ گیا ہے اور برآمدات میں 4 فیصد کمی صرف گیس کے جاری بحران کی وجہ سے ہوئی۔بی ایم جی و کراچی چیمبر کی قیادت اور تمام ٹائون ایسوایشنز کے صدور نے کراچی کی صنعتوں کو گیس کی شدید قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے پرزور مطالبہ کیا کہ گھوٹکی سے نکالی گئی پوری 100 فیصد گیس یعنی 110 ایم ایم سی ایف ڈی ایس ایس جی سی کو دی جائے تاکہ صنعتی سرگرمیاں کسی حد تک معمول پر آسکیں۔انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور وزیر توانائی امتیاز احمد شیخ سے بھی صورتحال کا نوٹس لینے کی اپیل کی تاکہ صوبہ سندھ بالخصوص کراچی شہر کی صنعتوں کو مزید تباہی سے بچایا جا سکے۔