کراچی (نیوز رپورٹر)جامعہ کراچی کی قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ناصرہ خاتون نے کہا کہ ذہانت کی اصل پہچان علم نہیں بلکہ تصور سے ہوتی ہے، قومیں اور انسان چلے جاتے ہیں مگر عظیم خیالات امر رہتے ہیں۔ انہی خیالات کی بدولت سائنس نے گزشتہ صدی میں تاریخی ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ کسی بھی سائنسی ایجاد کے لئے پہلے اس کا خیال سب سے کلیدی چیز ہوتا ہے۔سب سے پہلے میری طلبہ کو ہدایت ہے کہ اپنے دماغ میں نئے خیالات کو پنپنے دیں اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے تحقیق کریں۔جامعہ کراچی نئی تحقیق اور ترقی میں ہمیشہ سے کلیدی کردار کی حامل رہی ہے۔ شعبہ بائیوٹیکنالوجی کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس ایک بہترین سنگ میل ہے ۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے شعبہ بائیوٹیکنالوجی جامعہ کراچی کے زیر اہتمام بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی وحیاتیاتی علوم جامعہ کراچی میں منعقدہ فرسٹ انٹرنیشنل کانفرنس آف بائیوٹیکنالوجی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ڈاکٹر ناصرہ خاتون نے مزید کہا کہ دنیا بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اسی کے ساتھ اس کے مسائل میں بھی اسی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ دو سال پہلے انسانیت کو کورونا وائرس جیسی عفریت کا سامنا کرنا پڑا جس میں پوری دنیا سکوت کا شکار ہوگئی اور دنیا کو کھربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔صرف ہسپتال اور لیبز میں کاروبار زندگی جاری رہے بلکہ ان کی ذمہ داریوں میں بیش بہا اضافہ ہوگیا ، ڈاکٹرز اور سائنسدانوں کی انتھک محنت کی بعد اب جا کر حالات نارمل ہوچکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سائنسدان مل بیٹھ کر دنیا میں آئندہ آنے والی بیماریوں اور ایسی آفات کی پہلے سے تیاری کریں ۔شعبہ بائیوٹیکنالوجی جامعہ کراچی کی بانی چیئر پرسن وسندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کی پروفیسر ڈاکٹر تشمیم رزاقی کہ مالیکیولر بائیولوجی اور بائیوٹیکنالوجی کا ارتقاء کئی دہائیوں پر محیط ہے ،دیگر سائنسی علوم کو بائیوٹیکنالوجی کے ساتھ ضم کرکے بہت سے مسائل کا حل نکالاجاسکتا ہے جس میں ایگریکلچر مائیکروبائیولوجی اور میڈیکل سائنسز سرفہرست ہیں۔