بے نقاب اورنگ زیب اعوان
laghari768@gmail.com
ماہ رمضان رب العزت کی رحمتوں کے نزول کا وسیلہ ہے. اس ماہ مقدس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنی نوازشات کے دروازے کھول دیتا ہے. ایک چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا آجر لاکھوں نیکیوں کے برابر کر دیا جاتا ہے. یوں تو اللہ تعالیٰ ہر حال میں اپنے بندے سے محبت کرتا ہے. مگر ماہ صیام میں روزے دار سے محبت کا ایک اپنا منفرد مقام ہے. جسے لفظوں میں بیان کرنا نا ممکن ہے. انسان چند گھنٹے کی بھوک پیاس برداشت کرکے اللہ تعالیٰ کہ کس قدر نزدیک ہو جاتا ہے. اگر اسے اس قرب کی حقیقت معلوم ہو جائے. تو وہ سارا سال ہی روزے کی حالت میں رہے. اس ماہ مقدس میں چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی انسان کی بخشش کا ذریعہ بن جاتی ہے. مگر بدقسمتی سے بطور مسلمان ہم نے اس ماہ صیام کو بھی اپنی ذاتی نمود و نمائش کے اظہار کا وسیلہ بنا لیا ہے. جس کے پاس دولت ہے. وہ اس کی نمائش کرتا نظر آتا ہے.. سرمایہ دار غریب کی مدد کے نام پر اس کی غربت و مفلسی کا تمسخر اڑاتے ہیں. راشن کی تقسیم کے نام پر انسانیت کی تذلیل کی جاتی ہے. اپنی شاہانہ رہائش گاہوں کے باہر غرباءکی قطاریں لگوا کر ان میں راشن تقسیم کیا جاتا ہے. اس راشن سے کسی بھی غریب گھرانے کا مہینہ نہیں گزرتا. مگر اشرافیہ کا فوٹو شوٹ مکمل ہو جاتا ہے. ملک پاکستان میں یہ وبا اشرافیہ تک ہی نہیں. بلکہ ہماری حکومتوں تک میں سرایت کر چکی ہے. موجودہ حکومت ماہ رمضان میں غریب اور مستحق افراد میں مفت آٹا تقسیم کر رہی ہے. جس کے حصول کے لیے لمبی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں. کچھ جگہ تو آٹے کے حصول کی کوشش میں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں. دین اسلام نے تو غریب و مستحق افراد کی مدد کے لیے حکم صادر فرمایا ہے. کہ ان کی مدد اس طرح کرو. کہ ایک ہاتھ کسی کو کوئی چیز دو تو دوسرے ہاتھ تک کو اس کی خبر نہ ہو. اس عمدہ طریقہ کی مثال دنیا میں کہی نہیں ملتی. مگر آج ہم بطور مسلمان کس ڈگر پر چل نکلے ہیں. ہم نے اپنی اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈالتے ہوئے. نمود و نمائش کے کلچر کو اپنایا ہوا ہے. ہر کوئی ذاتی تشہیر کے چکر میں نظر آتا ہے. کسی کی مدد خفیہ طریقہ سے بھی کی جا سکتی ہے. اس کے لیے سرکاری مشینری استعمال کرنا ضروری نہیں. محکمہ نادرا جس کا بنیادی مقصد پاکستانی عوام کا ڈیٹا جمع کرنا ہے. جب کوئی بھی فرد اپنا قومی شناختی کارڈ بنواتا ہے. تو اس کی پوری فیملی کی تفصیلات کے ساتھ اس کے ذریعہ آمدن کا بھی پتہ چل جاتا ہے. مطلب حکومت کو مکمل پتہ ہوتا ہے. کہ کتنے لوگ امداد کے مستحق ہیں. ان کی امداد کرنے کے لیے موثر ترین طریقہ اختیار کرنا چاہیے. کیا ہی اچھا ہو. کہ حکومت وقت ان لوگوں کے شناختی کارڈ پر انہیں وہ تمام سہولیات مہیا کرے. جو وہ مستحق افراد کو فراہم کرنا چاہتی ہے. اس طرح سے ان کی عزت نفس پر بھی کوئی حرف نہیں آئے گا. یہ افراد جب کسی جگہ خریداری کرنے جائے. ان کے شناختی کارڈ نمبر سے دکان دار کو پتہ چلے. یہ حکومت وقت کی جاری کردہ سکیم کے لیے مستحق افراد ہیں. اور انہیں مطلوبہ سہولت فراہم کرنی ہے. اس طریقہ سے کسی دوسرے کو پتہ نہیں چلے گا. کہ یہ بندہ مفت چیز لایا ہے. یا خرید کر.. اسی طرح سے مفت آٹا سکیم ایک بھونڈا مذاق ہے. رمضان المبارک سے قبل سرکاری آٹا 648 روپے میں دس کلو مارکیٹ میں مل رہا تھا. مگر رمضان المبارک شروع ہوتے ہی اس کے نرخ بڑھا کر دس کلو کا تھیلا 1158 روپے کا کر دیا گیا. مطلب قمیت کو دو گنا کر دیا ہے. اور دوسری طرف مفت آٹا سکیم شروع کر دی گئ. واہ کیا مذاق ہے. اس غریب قوم کے ساتھ. مطلب ایک طرف متوسط طبقہ سے دس کلو آٹے کی قمیت ڈبل لی جا رہی ہے . تو دوسری طرف مفٹ آٹا سکیم جاری کر کے اپنی ذاتی تشہیر کی جا رہی ہے. کیا ہی اچھا ہوتا. کہ اوپن مارکیٹ میں دس کلو سرکاری آٹے کی قمیت میں دو سو روپے کمی کر کے 448 روپے کر دیا جاتا. اس طرح سے حکومت کا تشہیر کا مقصد بھی پورا ہو جاتا. اور غریب کو بھی باعزت طریقہ سے آٹا مل جاتا. مگر شاید حکومت وقت کا مقصد غریب کی مدد کرنا نہیں. بلکہ اس کی غربت کا تمسخر اڑانا ہے. پاکستان میں عوام ذلیل و رسوا ہوتی رہے گی. اور حکمران انہیں کے پیسوں سے ان کی تذلیل کو اپنا فرض منصبی سمجھ کر سرانجام دیتے رہے گے. اسلام دنیا کا وہ واحد دین ہے. جس کے حکمران راتوں کو بازاروں میں گھومتے تھے. یہ جاننے کے لیے کہ ہماری رعایا میں کوئی بھوکا تو نہیں سویا . اگر کہی ایسا شخص مل جاتا. تو پوشیدہ طریقہ سے رات کی تاریکی میں اس کی مدد کی جاتی. یہ دین اسلام ہی تھا . جس کے حکمران خوف خدا سے اس قدر ڈرتے تھے. کہ وہ علی اعلان فرماتے تھے. کہ اگر ان کی سلطنت میں کوئی کتا بھی بھوک کی وجہ سے مر گیا. تو ہم اللہ تعالیٰ کو جواب دے ہوگے. مگر آج تو انسان بھوک سے مر رہے ہیں. اور ہمارے حکمرانوں کو آپسی جھگڑوں سے فرصتِ نہیں. ان کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف اقتدار ہے. عوام سے ان کا تعلق محض اپنے اقتدار کو طول دینے کی حد تک ہے. اس ملک میں غریب کو انصاف نہیں ملتا. اسے اپنا قانونی حق حاصل کرنے کے لیے بھی کئی کئی سال انتظار کرنا پڑتا ہے. بعض اوقات تو انہیں نسل در نسل قانونی جنگ لڑنی پڑتی ہے. ہماری عدلیہ کا بھی دوہرا معیار ہے. اشرافیہ کے لیے تو اس کا پیمانہ انصاف الگ اور غریب کے لیے الگ ہے. بدقسمتی سے ہماری عدلیہ بھی پسند و ناپسند اور ذاتی تشہیر کے چکر میں پڑی ہوئی ہے. ان کے فیصلوں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا. کیونکہ ماضی میں اس کی طرف سے ایسی متنازع فیصلہ سازی کی گئی ہے . جس کی بدولت اس کے وقار میں کمی واقع ہوئی. آج اس کے اندر سے آوازیں آٹھ رہی ہیں. کہ ایک فرد واحد ذاتی پسند نا پسند کو مدنظر رکھ کر فیصلہ سازی کر رہا ہے. اس کے اختیارات پر سوال اٹھ رہے ہیں. آج قومی اسمبلی نے اس سلسلہ میں ایک بل پاس کیا ہے. جس کے تحت اب چیف جسٹس کسی بھی چیز پر از خود نوٹس لینے کا اہل نہیں. اس سلسلہ میں سپریم کورٹ آف پاکستان کےچار سینئر ترین جج فیصلہ کیا کرے گے. کہ کیا اس مسئلہ پر ازخود نوٹس لیا جائے یا نہ. اسی طرح سے کیسوں کی سماعت کے لیے عدالتی بینچوں کی تشکیل میں بھی یہی چار سینئر ترین جج اپنا کردار ادا کرے گے. یہ قانون اچھا ہے یا برا. یہ الگ بحث ہے. مگر فرد واحد کی فرعونیت کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں. اس لیے اس قانون کے اچھا ہونے پر شک نہیں کرنے چاہیے. وکلائ کے تحفظ کا بل بھی قومی اسمبلی سے پاس ہوا ہے. جو وکلائ کے لیے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے. جس طبقہ نے مظلوم کو انصاف لیکر دینا ہوتا ہے. وہ خود عدم تحفظ کا شکار تھا. آج کے بعد اس کے لیے کچھ آسانیاں پیدا ہو گی. بلاشبہ عدلیہ کی مضبوطی سے معاشرہ درست سمت پر گامزن ہو گا. قانون درست یا غلط نہیں ہوتا. اس کی تشکیل میں نیت دیکھنا ہوتی ہے. کہ وہ کس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تشکیل دیا جا رہا ہے. مفت آٹا سکیم بھی اسی چیز کو دیکھنا ہو گا. کہ اس کے پیچھے کیا چیز کارفرما ہے. مدد کرنا یا ذاتی تشہیر. اب تک تو اسے دیکھ باشگاف الفاظ میں کہا جا سکتا ہے. کہ یہ مدد کے نام پر ذاتی تشہیر زیادہ ہے. خدارا ماہ صیام کی رحمتوں سے مستفید ہونے کے لیے ذاتی تشہیر کے چکر سے باہر نکل کر دکھی و مستحق افراد کی مخفی طریقہ سے مدد کی جائے. ملک پاکستان میں ایسا نظام نافذ عمل کیا جائے. جس کے تحت غریب و مستحق افراد کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچائے بغیر ان کی مدد ہو سکے. ناکہ لمبی لمبی قطاروں میں بوڑھی ماو¿ں، جوان بہنوں بیٹیوں، ضعیف بزرگوں اور اس ملک کے مستقبل نوجوانوں کو فقیر بنایا جائے. دنیا کو دیکھانا ہو گا. کہ دین اسلام اپنے سنہری اصولوں کی بدولت اپنے شہریوں کی مدد کا کس احسن انداز میں بندوبست کرتا ہے. جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نوازشات اور نعمتوں سے نوازا ہے. انہیں بھی چاہیے کہ وہ خلق خدا کی اسی انداز میں مدد کرے. جس طرز کی امید وہ اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے رکھتے ہیں. خلق خدا کی مدد کے لیے مستقل بنیادوں پر پروگرام تشکیل دینا چاہیے. اس سلسلہ میں ماہ رمضان کا انتظار نہیں کرنا چاہیے. کاش ہماری ریاست میں وہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو سکے. جس میں کوئی بھیک مانگنے والا نہ ہو. یہ اسی صورت ممکن ہے. جب ہم دین اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو جائے گے. . اور اس کے طے کردہ مجوزہ طریقہ کار کو اپنا لے گے.
شمار اس کی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں