مفت آٹا اور عوام کی حالت زار
ضیاءالرحمن ضیائ
پہلے جو لوگ بھوک سے مر رہے تھے اب وہ حکومت کی طرف سے ملنے والے مفت آٹے کی جستجو میں مر رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر نہایت دلخراش مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں ، لوگ مفت آٹے کے حصول کے لیے ٹرکوں پر چڑھ جاتے ہیں جہاں سے گر کر زخمی ہوتے ہیں، کہیں بھگدڑ کی وجہ سے اموات ہو رہی ہیں ، کہیں لوگوں کے آپس میں لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں اور کہیں پولیس کی طرف سے ان پر لاٹھی چارج کیا جا رہا ہے۔ غریب لوگ آٹا لینے کے لیے جب پہنچتے ہیں تو انہیں وہاں معلوم ہوتا ہے کہ آٹا طلب سے کہیں کم ہے جس کی وجہ سے کئی لوگ محروم رہ جائیں گے، اس لیے وہ اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔
عام حالات میں تو چھینا جھپٹی کرنے والوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن کیا کریں جو اپنی بھوک مٹانے کے لیے کچھ چھین رہے ہوں انہیں برا بھی نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے ایک شخص کو معلوم ہے کہ اگروہ اپنا حق چھین کر نہیں لے گا تو وہ اس سے محروم ہو جائے گا تو وہ کیا کرے گا ؟ اگراسے اس کا حق باعزت طریقے سے دے دیا جائے تو وہ کیونکر چھینے گا؟ لیکن یہاں حکومت کی ناقص پالیسیوں نے عوام کو فاقوں پر مجبور کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا حق چھیننے پر مجبور ہیں۔ ایک طرف ان کی بھوک ہے جس کا نتیجہ بیماری اور موت ہے جبکہ دوسری طرف روٹی چھیننے کا آپشن ہے تو ظاہر ہے کہ وہ بھوک سے مرنے اور بچوں کو بھوک سے تڑپتا دیکھنے کی بجائے روٹی چھیننے کوترجیح دیں گے۔ بلکہ ایک طرح سے یہ ان کا حق بھی بن جاتا ہے کہ بھوک سے مرنے سے بہتر ہے کہ وہ روٹی چھین کر کھالیں۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ وہ جن لوگوں سے آٹا چھین رہے ہیں وہ بیچارے خود بھی انہی کی طرح مجبور ہوتے ہیں۔ وہ بھی بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہی آٹا لینے کے لیے قطاروں میں لگتے ہیں جب آٹا ہاتھ آتا ہے تو کوئی اور چھین کر لے جاتا ہے جو نہایت کربناک صورتحال ہے۔ اب تک کئی لوگ آٹے کے حصول کے لیے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
حکومت نے جیسے تیسے عوام کو مفت آٹے کی فراہمی تو یقینی بنا دی جو کہ احسن اقدام ہے لیکن پھر اپنی روایتی نااہلی کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی تقسیم کا کوئی موثر طریقہ کار وضع نہیں کیا ، رجسٹریشن کا پیچیدہ طریقہ ، آٹے کی طلب کے مقابلے میں بہت کم فراہمی، جس کی وجہ سے لوگ سارا سارا دن روزے کی حالت میں قطاروں میں کھڑے ہو کر خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ اس کے لیے کوئی طریقہ کار نہیں بنایا گیا جس نے ملک کے غریبوں کو مزید مسائل میں دھکیل دیا ہے۔ حکومت نے پہلے ہی نااہلیوں کی طویل داستان رقم کر دی ہے ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہو چکا ہے جو دن بدن بڑھ رہا ہے پٹرول کی قیمت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ غریب عوام موٹر سائیکل تک چلانے سے عاجز آگئے ہیں۔ حکومت نے کچھ عرصہ قبل اعلان تو کیا تھا کہ موٹرسائیکلوں اور آٹھ سو سی سی تک کی گاڑیوں کے لیے سستا پٹرول فراہم کیا جائے لیکن نہ جانے اس پر عمل کب ہو گا؟ جب پٹرول مہنگا کرنا ہوتو فوری اطلاق ہو جاتا ہے لیکن سستا کرنے کے لیے وہ کوئی طریقہ کار وضع نہیں کر پا رہے اور اس کو مزید لٹکایا جا رہا ہے۔ بیروزگاری نے ملک میں بری طرح پنجے گاڑ رکھے ہیں جس نے لوگوں کو بھوکے رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جو لوگ تو ذرا آسودہ حال ہیں ان کا ذہن اس بات کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتا کہ کسی کے گھر میں فاقہ بھی ہو سکتا ہے یا کوئی شخص ایسا بھی ہے جو بنیادی ضرورت کی اشیائ سے بھی محروم ہو سکتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس وقت ملک میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو فاقہ کشی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ بچوں کی تعلیم اور علم و ہنر تو رہے ایک طرف بچوں کا کھانا اور لباس ہی پورا نہیں کر پا رہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب حکومت کی طرف سے مفت آٹے کا اعلان ہوا تو ایسے غریب لوگ آٹے کے حصول کے لیے پہنچ گئے لیکن وہاں جو صورتحال بنی ان سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے سستے آٹے کے نام پر عوام کے ساتھ مذاق کیا ہے اور انہیں ذلیل و رسوا کرنے کا ایک بہانہ بنایا ہے۔ حکومت کا یہ اقدام یقینا قابل ستائش ہوتا اگر وہ اس کی تقسیم کے لیے ایک بہترین طریقہ کار بھی وضع کرتی۔ لوگوں کو مفت آٹا عزت اور سہولت کے ساتھ ملتا۔ بہتر تو یہی تھا کہ حکومت آٹے کو گلی محلوں تک پہنچاتی اور چھوٹی چھوٹی گاڑیوں میں چھوٹے چھوٹے محلوں تک جاتا جہاں رش کم ہوتا اور لوگ باآسانی وہاں سے آٹا حاصل کر لیتے۔ اس سے بھی بہتر یہ ہوتا کہ یہ آٹا دکانوں پر رکھوایا جاتا اور وہاں سے عوام کو فراہم کیا جاتا۔ اس طرح عزت سے مفت کی بجائے سستا آٹا دے دیا جاتا تو وہ مفت آٹے سے زیادہ مفید ہوتااور عوام کے لیے اس کا حصول بھی آسان ہوتا۔ نہایت سستا آٹا دکانوں پر دستیاب ہوتا تو لوگ وہاں سے باآسانی خرید بھی سکتے تھے اور حکومت پر بھی زیادہ بوجھ نہ پڑتا۔ لہٰذا حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ آٹے کی تقسیم کے لیے موثر طریقہ کار وضع کرے تاکہ عوام عز ت کے ساتھ باآسانی اپنی قریبی دکانوں یا گاڑیوں سے آٹا حاصل کر سکیں اور غریب عوام کا مزید تماشا بھی نہ بنے۔