ارشاد باری تعالیٰ ہے:ترجمہ ”اور جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو آپ فرما دیجیے کہ میں قریب ہی ہوں۔ دعا مانگنے والوں کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا مانگیں۔ پس انہیں میرا حکم ماننا چاہیے اور مجھ پر ایمان لانا چاہیے تاکہ وہ نیک راہ پر آجائیں۔“یہ سورہءبقرہ کی آیت نمبر186ہے۔ اس سے پہلے تین آیتوں میں روزے اور رمضان کے احکام اور فضائل کا ذکر تھا اس کے بعد اس آیت میں فرمایا کہ میں اپنے بندوں سے قریب ہی ہوں جب بھی وہ دعائیں مانگتے ہیں میں قبول کرتا ہوں۔رسول اکرم افطار کے وقت یہ دعا بھی مانگتے:(یاواسع الفضل اغفرلی)۔ارشاد نبوی ہے، ترجمہ ” روزہ افطار کرنے کے وقت روزہ دار کی دعا قبول ہوتی ہے۔“
روزو ں اور رمضان المبارک کے ذکر کے ساتھ دعا مانگنے کا تذکرہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ رمضان کا مہینہ دعاو¿ں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔دعا کا لفظ ضرورت یا مدد کے لیے پکارنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو دعا مانگنے کا حکم دیا اور دعا کو بھی ایک عبادت اور بندگی کا ذریعہ قرار دیا ہے جو کہ اس امت کا خاص اعزاز ہے ورنہ حضرت کعب احبار کی روایت کے مطابق پہلے زمانہ میں یہ خصوصیت انبیاءؑکی تھی۔ انبیاء لوگوں کے لیے دعا کرتے، اللہ تعالیٰ قبول فرماتا اور امت محمدیہ کی خصوصیت کہ یہ حکم پوری امت کے لیے عام قرار دیا اور فرمایا:ترجمہ ”اور تمہارے رب نے کہا کہ تم مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔“
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم منقول ہے ”ان الدعائ سلاح المو¿من“ یعنی دعائ مومن کا ہتھیار ہے۔ ظاہر ہے کہ ہتھیار صحیح کام تب ہی دکھاتا ہے جب ہتھیار بھی تیز ہو اور چلانے والا بھی طاقتور ہو۔
اب دعا کیسے طاقتور بنے اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آداب سکھلائے۔ دعاو¿ں کے الفاظ سکھلائے جو مسنون دعائیں کہلاتی ہیں اور وہ اوقات بتائے جن میں دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں ان میں ایک موقعہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے‘ ہماری دعائیں کیسے طاقتور بنیں اس کے لیے بنیادی اصول اللہ تعالیٰ نے سورہءاعراف کی آیت نمبر ۵۵ میں فرمایا ترجمہ” تم اپنے رب سے دعا کیا کرو عاجزی کے ساتھ اور پوشیدہ طریقے سے“۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ دعا کرنے والا خشوع و خضوع یعنی عاجزی اور اللہ کے دھیان کے ساتھ دعا مانگے اور دوسرا ادب یہ معلوم ہوا کہ آہستہ آواز سے دعا مانگے اگر عام مقتدی دعاو¿ں سے ناواقف ہوں تو پھر امام کے لیے اونچی آواز سے دعا مانگنے میں کوئی حرج نہیں۔
قرآن مجید میں مختلف انبیاء کے حوالے سے دعائیںمذکور ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ دعائیں قبول فرمائی ہیں۔ احادیث میں جو دعائیں رسول اکرم نے سکھائی ہیں وہ مانگی جائیں۔لیکن قرآن و حدیث کے عربی جملے جن میں دعائیں ہیں اگر ان کا ترجمہ اور مطلب معلوم ہو تو پھر وہی دعائیں مانگنا افضل اور بہتر ہے۔ عام حالات میں اگر ان دعاو¿ں کا مطلب معلوم نہ ہو تو پھر مانگنے والے کو تو معلوم نہیں کہ ان دعائیہ جملوں سے ہم اللہ سے کیا مانگ رہے ہیں۔ لہٰذا ان دعاو¿ں کے پڑھنے کا ثواب تو ضرور ملے گا لیکن اسے دعا مانگنا نہیں کہیں گے بلکہ دعا پڑھنا کہیں گے اس لیے دعا مانگتے وقت پہلے مسنون دعائیں بھی پڑھ لی جائیں پھر جو دعاو¿ں کا مفہوم نہ جانتا ہو وہ اپنی زبان میں بھی دعائیں مانگ سکتا ہے۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ رمضان المبارک دعاو¿ں کی قبولیت کا مہینہ ہے تو دل میں خیال آجانے سے انسان دعا مانگنے سے رک جاتا ہے کہ ہماری دعا قبول ہی نہیں ہوتی۔اس بارے میں ایک بات تو یہ قابل ذکر ہے کہ ارشادات نبویہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حرام مال کھانے اور حرام لباس استعمال کرنے اور حرام کمائی کرنے والے کی دعاءقبول نہیں ہوتی لیکن اس کے علاوہ ہر شخص کی دعا قبول ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:ترجمہ ” بسا اوقات تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہوتی ہے۔ اور بسااوقات تم کسی چیز کو پسند کرتے ہو اور وہ تمہارے لیے بری ہوتی ہے۔“اس لیے انسان کا کام ہے اللہ سے دعائیں کرتے رہنا، مانگتے رہنا، یا تو اللہ تعالیٰ بندہ کو وہی چیز دیتا ہے یا اس کا نعم البدل عطاءفرما دیتا ہے اور ان دعاو¿ں کی بدولت آخرت میںاس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے، اس وقت بندہ کہے گا کہ کاش دنیا میں میری کوئی دعا قبول نہ ہوتی سب کا بدلہ یہاں آخرت میں ملتا۔رسول اکرمنے دعاو¿ں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بہت سے لوگ جلد بازی کی وجہ سے اپنی دعائیں ضائع کر دیتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا جلد بازی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا دعا مانگنے کے بعد یہ کہنا کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی، دعا کو ضائع کرنا ہے۔لہٰذا رمضان کے اس بابرکت مہینہ میں خوب دعائیں مانگی جائیں اور اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہی ہماری دعائیں قبول کرنے والا ہے۔ دعا میں اپنے لئے اپنے والدین کے لیے اور دوسرے مسلمان بھائیوں کے لیے دعا کرنا۔ پوری انسانیت کی ہدایت کے لیے دعا مانگنا، پختہ عزم سے دعا مانگنا، بار باردعاکرنا، اس لیے کہ رسول اللہ نے فرمایا:ترجمہ” رمضان کا یہ مہینہ ایسا ہے کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے اور درمیانہ عشرہ بخشش کا ہے اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی کا ہے۔“اس لیے دعا کرتے ہوئے رمضان المبارک میں خصوصاً اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا مہینہ آتا تو حضور کا رنگ بدل جاتا‘ نماز میں اضافہ ہو جاتا اور دعا میں بڑی عاجزی فرماتے۔ روزے میں دن بھر خوب دعائیں مانگی جائیں پھر جب افطار کا وقت آجائے تو یہ بھی بڑی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔