حکومت کے عوامی ریلیف پیکیجز میں آئی ایم ایف کی مداخلت

 عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف )نے پٹرول پر مجوزہ سبسڈی کی ابتدائی تجویز مسترد کردی۔ حکومت پاکستان کی جانب سے موٹر سائیکل اور 800 سی سی سے کم گاڑیوں کیلئے سستے پٹرول کی سکیم پر شدید اعتراض کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے سوال اٹھایا کہ اس سکیم کیلئے کتنی سبسڈی درکار ہوگی‘ وہ کہاں سے آئےگی اور اس کے کتنے کنزیومر ہوں گے؟ آئی ایم ایف نے اس حوالے سے حکومت سے مکمل پلان مانگ لیا ہے جبکہ آئی ایم ایف کی جانب سے غریب طبقے کو زیادہ مو¿ثر ٹارگٹڈ سبسڈی دینے پر زور دیا گیاہے۔
آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے تحت مہنگا کیا گیا پٹرول اب موٹر سائیکل اور رکشہ استعمال کرنے والوں کی دسترس سے باہر ہو چکا ہے جس کا ادراک کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے موٹر سائیکل‘ رکشہ اور چھوٹی گاڑیوں کیلئے سستا پٹرول سکیم کا اعلان کیا جسے پہلے ایک سازش کے تحت پاکستان میں موجود پٹرول مافیانے لاگو نہیں ہونے دیا اور اب آئی ایم ایف نے بھی پٹرول پر دی گئی سبسڈی کو مسترد کر دیا۔ ایک طرف آئی ایم ایف اس بات پر زور دے رہا ہے کہ غربا¿ کو مو¿ثر ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے‘دوسری جانب حکومت کی طرف سے پٹرول پر دی گئی سبسڈی پر اس نے قدغن لگا دی۔عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ حکومت نے معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کی خاطر آئی ایم ایف کی ناروا اور کڑی شرائط مان کر ملک کو عملاً اسکے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ آئی ایم ایف جس طرح حکومت کو ڈکٹیشن دے رہا ہے اور عوامی مفاد کے حکومتی فیصلوں کو جس طرح رد کررہا ہے‘ اس سے وہ خود یہ تاثر پختہ کر رہا ہے کہ پاکستان کے حکومتی امور اسکے زیراثر ہیں۔ آئی ایم ایف کے اس اقدام سے جہاں حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں‘ وہیں عوام میں حکومت کیخلاف شدید ردعمل بھی پیدا ہو رہا ہے جو حکمران جماعتوں کیلئے لمحہ¿ فکریہ ہونا چاہیے۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ ملک و قوم کے مفاد میں حکومت کو مشکل فیصلہ کرتے ہوئے آئی ایم ایف کو اب انف از انف کہہ دینا چاہیے اور اس سے اپنی جان چھڑانے کی مو¿ثر سبیل نکالنی چاہیے۔ معیشت کو درست کرنے کیلئے اپنے دوست ممالک سے رجوع کرنا چاہیے جو پاکستان کو غیرمشروط قرضہ دینے پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن