پاکستان مسلسل مسائل اور غیریقینی کا شکارہے، خطرات کے ساتھ عوام میں مایوسی بھی بڑھتی جارہی ہے جو کسی بھی صورت نیک شگون نہیں۔ ویسے تو اپنی آزادی کے76سال کے دوران بیشتر وقت ہم مسائل اور مشکلات کا شکارہی رہے ہیں جن کی کئی وجوہ ہیں مگر آج کل ان مسائل کی نوعیت مختلف ہے۔ آج ہمیں بیرونی خطرات سے زیادہ اندرونی خلفشار کا سامنا ہے۔ پاکستان کی جوہری صلاحیت اور ہماری افواج کی پیشہ وارانہ مہارت کے باعث اب بیرونی دشمن کے لیے ہمیں روایتی طور پر ٹارگٹ کرنا آسان نہیں اور اسی وجہ سے اب دشمن کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ ہمیں اندرونی طور پر کمزور کرے جس میں وہ اب کافی حد تک کامیاب نظرآتاہے۔ کوئی بھی بیرونی دشمن ایسا اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک اسے اندرونی طور پر ایسے لوگ نہ مل جائیں جو اس کے سہولت کار ہوں۔ بدقسمتی سے ملک کے اندر ایک شدید سیاسی عدم استحکام ہے اور سیاست اب مخالفت سے بڑھ کر دشمنی اور ذاتیات تک آگئی ہے۔
ہمارے سیاسی رہنما بالخصوص سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جن کی ساری سیاست ہی محاذ آرائی اور تنازعات پر مشتمل ہے، وہ ملک میں اس شدید سیاسی عدم استحکام کی بنیادی وجہ ہیں۔ آج کل بھارت کامیڈیا اور رائے عامہ کو ہموار کرنے والے دوسرے ادارے اور شخصیات عمران خان اور ان کی جماعت کے گن گاتے نظرآتے ہیں۔ دشمن کو اور کیا چاہیے کہ جو کام کوشش اور بھرپور سازشوں کے باوجود وہ آج تک کامیابی سے نہ کرسکا وہ ہمارے اندر سے ہی کچھ لوگ کرتے نظرآرہے ہیں۔ دشمن کا ہمیشہ ہی سے ہدف پاک فوج اور ہمارا معاشرتی نظام رہاہے۔ آج پاک فوج اور اس کی قیادت کے خلاف ایک گندی ترین اور ناقابلِ معافی مہم چلائی جارہی ہے اور اسی طرح قوم کی اخلاقی اقدار تباہ کی جارہی ہیں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف ایک غلیظ مہم چلائی جارہی ہے اور بدقسمتی سے چلانے والے کوئی اور نہیں ہمارے اپنے ہی ہیں۔ اس مہم کے روح رواں عمران خان اور ان کے حواری ہیں۔ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا سیل فیک اکاﺅنٹ کھول کر اس مہم میں خوب حصہ ڈال رہا ہے۔
گزشتہ دنوں لندن اور واشنگٹن میں باقاعدہ مظاہرے بھی کیے گئے جن میں مٹھی بھر لوگوں نے تحریک انصاف کے جھنڈے اٹھاکر فوج اور سپہ سالار کے خلاف شرمناک اور ناقابلِ معافی نعرے لگائے اور پلے کارڈ اٹھاکر ان پر درج انتہائی شرمناک نعرے دنیا کو دکھائے۔ اس حرکت کی نہ صرف بھرپور مذمت کی جانی چاہیے بلکہ اس گھناﺅنے فعل میں شامل افراد اور ان کے پاکستان میں بیٹھے سہولت کاروںا ور رہنماﺅں کو قانون کے کٹہرے میں بھی لانا چاہیے۔ شرمناک بات تویہ ہے کہ عمران خان جو ساڑھے تین سال تک ملک کے اعلیٰ ترین انتظامی عہدے پر فائز رہے ان کی طرف سے اس شرمناک مہم پر ایک لفظ بھی نہیں بولاگیا بلکہ جب اس سلسلے میں کچھ افراد کو قانون کی گرفت میں لانے کی کوشش کی گئی تو وہ الٹا ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے نظرآئے ہیں۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سیل ریاست اور اس کے اہم ترین اداروں کے خلاف اس منظم مہم کا ہراول دستہ ہے۔ لوگوں کے ذہنوں کو آلودہ کیاجارہاہے اور نشانہ بالخصوص نوجوان اور پڑھے لکھے لوگ ہیں جو پاکستان کا مستقبل ہیں۔
آج پاکستان کو شدید ترین خطرات کا سامنا ہے ا ور ایسے میں پاک فوج اور اس کی قیادت کو اس طرح نشانہ بنانا کھلی ملک دشمنی ہے۔ پاک فوج ہماری بقاءاور سلامتی کی علامت ہے۔ بھارت سمیت پاکستان کے تمام دشمن ہماری فوج سے خوفزدہ ہیں۔ فوج میں کمان کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور کمان کے متعلق بدگمانی پیدا کرنے کی کوشش ایک جرم ہے جس کی کوئی معافی نہیں۔ ایک بڑی سیاسی جماعت جو ملک کی حکمران بھی رہ چکی ہے، کی طرف سے اپنی سیاست چمکانے کے لیے اس طرح کی غلیظ مہم چلانا دراصل دشمن کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے مترادف ہے۔ بدقسمتی سے اس مہم میں چند ریٹائرڈ آرمی افسر بھی شامل ہیں جن میں سے کچھ بیرون ملک بیٹھ کر یہ کام کررہے ہیں ۔ اس طرح کے شرمناک کرداروں کو نشانِ عبرت بنانا چاہیے۔ یہ سب بظاہر تو سیاست اور جمہوریت کے نام پر کیاجارہاہے مگر اس کے پیچھے دشمن کا باقاعدہ ہاتھ ہے۔ دنیا میں کہیںاور ایسی مثال نہیں ملتی کہ ایک سیاسی جماعت اپنی ہی فوج کے خلاف بیرون ملک اس طرح کی مہم چلائے۔
آج بھارت کامیڈیا اس طرح کی خبروں کو بڑھا چڑھاکر پیش کررہاہے کیونکہ یہ وہ کام ہے جو وہ کوشش کے باوجود نہیں کرسکا۔ اس مہم میں بنیادی کردار نوجوانوں کو دیاگیاہے جبکہ کچھ نام نہاد صحافی بھی اس میں شامل ہیں۔ اس طرح نوجوانوں کو ملک کی فوج کے بارے میں بدظن کرنا وطن دشمنی ہے کیونکہ انھی نوجوانوں نے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ فوج کے جوانوں اور نوجوان افسروں کا مورال بھی اس سے متاثر ہوتاہے جس سے وہ اپنے فرائض منصبی اس طرح ادا نہیں کرسکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس شرمناک مہم کو فی الفور روکاجائے اور تمام ذمہ داروں کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق سخت ترین کارروائی کی جائے۔ اسے سیاست یا مخالفت سمجھ کر درگزرکرنا بھی انتہائی خطرناک ہوگا، یہ نہ تو شخصی آزادی کے زمرے میں آتاہے اورنہ ہی اس کا کوئی تعلق بنیادی انسانی حقوق سے ہے۔