پچھلے دنوں دنیا بھر میں نیند کا عالمی دن منایا گیا۔ نیند اور بھوک دو ایسی چیزیں ہیں جن کو جتنا مرضی بڑھالو۔ کم کر لو۔ زیادہ سونے والے جب نیند سے جاگتے ہیں تو ایک ”تحقیق“ کے مطابق انسانی دماغ 2، اڑھائی گھنٹے کے بعد جاگتا ہے۔فعال ہوتا ہے۔ یہ میرا کئی مرتبہ کا ذاتی مشاہدہ ہے۔ ذاتی تجربہ ہے جب معمول سے ہٹ کر سوئے تو صبح ا±ٹھنے کے کئی گھنٹوں بعد دماغ نے کام کرنا شروع کیا۔ جسم تو س±ستی۔ کاہلی محسوس کرتا ہی تھا مگر یقین مانیے دماغ پتھر مثل معلوم ہوتا تھا۔ آرام کی ضرورت ایک حد تک ہوتی ہے۔آرام اور ضرورت میں مقررہ حد سے بڑھ جائیں تو پھر نہ چاہتے ہوئے بھی بے پناہ بیماریاں۔ خرابیاں جسم و جان کو جکڑ لیتی ہیں۔ انسان سب کچھ پاتے ہوئے بھی خود کو خالی دامن خیال کرتا ہے۔ بیکار سوچوں۔ وہم۔ وسوسوں اور ڈر۔ خوف کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ جسم کمزور ہو جاتا ہے۔ یہی حال لمحہ موجود میں ہم سب کا ہو چکا ہے۔ اب براہ کرم ا±ٹھ جائیں۔ اتنی نیند بھی ٹھیک نہیں۔ بچوں میں شروع میں زیادہ نیند غالب رہتی ہے پھر عمر بڑھنے کے ساتھ آہستہ آہستہ کم ہوتی جاتی ہے۔ عمر کے مطابق نیند کم ہوتی جاتی ہے مگر ہم ہیں کہ بڑے ہو گئے۔ بوڑھے ہو گئے۔ پر نیند ہے کہ کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جارہی ہے۔ جو کچھ گھنٹے جاگتے ہیں وہ بھی غنودگی کے عالم میں۔ ملک عزیز کی عمر ”80سال“ سے تجاوز کر گئی ہمارے مسائل وہی۔ ہماری عادات وہی۔ ہمارے رویے وہی۔ کہنے کو ہم جمہوری ملک مگر افعال۔ حرکات ڈکٹیٹرز کے طرز حکومتوں کو شرمندہ کرتی ہوئیں۔ آج ہمارا حال کیا ہے ؟کسی بھی مسئلہ کو سنجیدگی سے لیا نہ وقت پر حل کرنے کی تدبیر کی۔ سو نتائج سامنے جسم بھی لاغر۔ نحیف۔ دماغ بھی غیر ضروری انبار تلے دبا ہوا۔ جتنے مسائل ا±ٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہماری اپنی لاپرواہی ہے۔ دانستہ۔ اغماض برتنے کیوجہ سے ہوئے۔ نہ امن ہے نہ ”پیٹ“ کو شافی حد تک مطمن کرتی ”روٹی“ صرف ایک سطری بیان پورے ملک کی مارکیٹ کریش کر دیتا ہے پر کبھی کِسی نے سوچا کہ بولنا بند کردیں۔ بلاوجہ افواہیں پھیلا نا روک دیں۔ ”ٹی دی چینلز“ سے ذِمہ داران وطن تک کوئی بھی ذِمہ داری بٹانے کو تیار نہیں۔
”کج بحثی“: اسوقت پورا ملک عجب طرح کی کج بحثی میں ا±لجھا ہوا ہے۔ کچھ سال پہلے تک بھاری بھر کم الفاظ۔ قوم کے درد میں ڈوبی آوازیں۔ عوامی مسائل کو ا±جاگر کرتے ”گلے“ واقعی دل کو بھاتے تھے پر اب؟ قارئین۔ یقین مانئیے۔ عوام پ±ر کشش الفاظ کے فیز سے نکل چ±کے ہیں۔ ہمارے مسائل حل ہونا چاہیں۔ مسئلہ بیان مت کرو۔ حل نکالو۔ تقریر نہیں ریلیف دو۔ ”80سالوں“ سے ایک ہی ٹائپ کی گھسی پٹی باتیں سننے کی اب کسی کو فرصت نہیں۔ معاشی مسائل کی گھمبیرتا اتنی بڑھ چکی ہے اسی لیے اب عوام طیش و غم کا اظہار کرنے میں لمحہ بھر بھی نہیں لگاتے۔ جن گروہوں۔ شخصیات نے ملک و قوم کا ناس مارا۔ نہ ختم ہونے والے بحرانوں میں پھینکا۔ اب تو کچھ بھی نہیں پوشیدہ۔ یہ ”21ویں صدی “کا آخیر ہے عقل و شعور۔ آگاہی جدید ٹیکنالوجی کی لہروں کی رفتار سے اپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہے کوئی بھی کسی کو ”ماموں“ نہیں بنا سکتا حتیٰ کہ ثانیہ برابر بھی نہیں۔ کوئی پابندی نہ ذہن کو مفلوج کر سکتی ہے۔اور نہ ہی ہی لہروں کو آگے بڑھنے سے روکنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ یہ دور ہے اکٹھے بیٹھنے کا۔ اکٹھے سوچنے کا۔ مل جل کر چلنے کا ناکہ دوسروں کے آگے بلا جواز ر±کاوٹیں کھڑی کرنے۔ انتشار پھیلانے کا۔ آئیے ہم سب اپنی نیند کا غیر ضروری بوجھ ا±تار پھینکیں۔ نیند صرف وہ نہیں جو ہم ”سونے“ کو کہتے ہیں۔
میرے نزدیک ہر وہ چیز نیند ہے جو ہماری ذات۔ زندگی۔ قوم۔ ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ تعصب کی حد کو چھوتا ہوا انسانی عقیدہ۔ متشدد بناتا لب و لہجہ۔ انسان کو انسان سمجھنے کی بجائے ”دیوتا“ کا درجہ دینے کی ناقص عادات۔ دوسروں کے عقائد کو چھیڑنے کا شغل۔ دشمنی کی نچلی ترین سطح تک پہنچا ہوا سیاسی اختلاف۔ کاروباری رنجشیں۔ خاندانی مسائل کو دانشمندی اور بزرگوں کی مدد سے س±لجھانے کی بجائے گالی۔ دھمکیوں۔ مارکٹائی سے بگاڑنے کی عاداتِ بد۔مشورے میں خیر ہونے کے باوجود بندوق کی نالی پر مسئلہ حل کرنے کے جتن۔ کیا کچھ نہیں ہورہا؟ ہمارے معاشرے میں۔ صرف مہنگائی کو ”جن“ کہنے سے بقیہ مصائب ختم ہو جاتے ہیں۔ حکومت نے تو سہولت دی اب ا±س کو وبال قرار دینے میں ج±تے بیٹھے ہیں۔ چھوٹا ریلیف نہیں ”مفت آٹا“ بہت بڑی ریلیف ہے سراہا جانا چا ہیے۔ لوگ معترض ہیں کہ اتنے کا ”آٹا“ نہیں ملے گا جتنے پیسے ”دوروں “ میں ا±ڑا دئیے۔ بات بنتی نہیں۔ہر وقت تنقید۔ تنقید اچھی روش نہیں۔بہت بڑی ریلیف ہے سراہا جانا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ اب ”سیاست“ کو ایک طرف رکھ دیں۔ اپنی سوچ کو مثبت انداز میں بدلیں۔ یہ دیکھا جانا چاہیے کہ کام کیا ہے ؟ کام کی نوعیت کیا ہے ؟ بہبود و فلاح کے اقدامات جو بھی کر دے تسلیم ہونا چاہیں۔ سارے کام صرف ایک ”پارٹی“ نہیں کر سکتی اور ویسے بھی جو حالات ہیں وہ تو یہی تقاضا کرتے ہیں کہ اتحاد۔ اتفاق کی ضرورت پہلے سے دوگنا بڑھ چکی ہے۔ آج نہیں تو کل اکٹھا بیٹھنا پڑے گا جتنی جلدی اِس پ±کار کو مان لیں گے اتنا ہی سب کیلئے مفید ہوگا۔
سیاسی رائے گہری دشمنی میں بدل دینے میں ہم ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ فیصلہ سازی کے لیے” آزادی“ آکسیجن مانند ضروری ہے۔ دباو ¿۔ دھمکیوں والا ماحول مستقبل میں کِسی کے لیے بھی مفید۔ سازگار ثابت نہیں ہوگا۔ یہ وہ سچ ہے جو سبھی جانتے ہیں۔ سیاست کو سیاسی انداز۔ اصولوں کے مطابق چلائیں۔ ”کرسی۔اقتدار“ کبھی بھی سدا کِسی کے پاس نہیں رہا۔سوچنے۔ سمجھنے کے لیے ڈھیر ساری گزشتہ و حالیہ باتیں۔ واقعات ہیں۔ عارضی۔ عارضی ہے بس کام نمٹائیں۔ یہ پکی زندگی نہیں۔ یہ اعمال کی دنیا ہے۔ ہمیشگی کی دنیا آخرت ہے۔ حساب کی دنیا کے مطابق تیاری کریں۔ کام کریں۔