بہت سی دیگر منفرد خوبیوں اور نادر صلاحیتوں کا جائزہ لیتے وقت یہ حقیقت اظہرمن لشمس ہوتی ہے کہ دو ملکی امور میں ہم نے سپیشلائزیشن کا اعزاز حاصل کر رکھا ہے۔ یقیناً اِس اجارے پر فائز رہنے کیلئے ہم نے انتہائی ثابت قدمی سے کام بھی بہت کیا ہے اور اِسکی بھاری قیمت بھی ادا کی ہے۔ بلا شبہ ہم ہمیشہ قیمت بھاری ہی ادا کرتے ہیں، کم قیمت ادا کرنے میں ہمیں مزا ہی نہیں آتا۔ اِسکے باوجود ہم نے اپنی روایات کی پیروی کرنے سے رتی برابر روگردانی نہیں کی۔ ایک تو ہم اپنی شبانہ روز کاوشوں سے دنیا بھر کے میڈیا میں اپنا مستقل اور دیرپا مقام حاصل کرنے میں پہلے نمبر پر رہے اور دوسرا، کسی کیمیائی عمل کے بغیر ہی ایشوز کو نان ایشوز اور نان ایشوز کو ایشوز میں تبدیل کرنا بھی ہمارا بائیں ہاتھ کا کھیل ٹھہرا۔ زمانہ ہمارا یہ اعتماد دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے کہ کس طرح ہم یہ سب کھلے عام اور پر اعتماد طریقوں سے کر گزرتے ہیں۔ بھلے ہماری حکومتوں کی امن و امان، کساد بازاری، ادائیگیوں کے توازن، معیشت، آئین اور قانون پر اتنی دسترس، قدرت یا ترجیح نہ سہی مگر اِن دو امور میں ہم نے کسی اور کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیا۔ حالیہ دنوں میں پیش آنے والے دو واقعات ملاحظہ فرمائیں:
چھ ججز نے 25 مارچ کو ایک خط کے ذرئعے سپریم جوڈیشل کونسل سے مطالبہ کیا کہ خفیہ اداروں کی عدالتی امور میں مسلسل مداخلت پر جوڈیشل کنونشن طلب کیا جائے۔ اس خط کے منظر عام پر آتے ہی چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس منعقد ہوا اور 28 مارچ کو چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیراعظم پاکستان کے درمیان ملاقات بھی ہوئی۔ وزیراعظم پاکستان نے ملاقات میں مذکورہ شکایات پر چھان بین کرنے کی یقین دہانی کروانے کے ساتھ ساتھ تحقیقات کیلئے سابق عدالتی شخصیت پر مشتمل ایک رْکنی کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ وزیر قانون نے دعویٰ کیا کہ یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش ہونے کے بعد یہ کمیشن دو چار روز میں نوٹیفائی ہوجائے گا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ساری پیش رفت ہائی کورٹ کے ایک سابقہ جج شوکت عزیز صدیقی کو سپریم کورٹ سے ریلیف ملنے کے بعد ہوئی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو خفیہ ہاتھوں کی جانب سے دباؤ میں لانے کی حرفِ شکایت سامنے آنے پر پی ٹی آئی کی حکومت نے انکے خلاف ایک ریفرنس کے نتیجے میں نوکری سے برخاست کروا دیا تھا۔ تب اپوزیشن والے اِس ایکشن پر تنقید اور حکومتی ارکان دفاع کرتے تھے۔ محبوبیت کے معیار بدلتے ہی دونوں کے موقف بھی تبدیل ہو گئے۔ اصول پر مبنی حقیقت تو یہی ہونی چاہئیے کہ تمام ادارے آئین کے مطابق اپنے دائرہء اختیار میں رہ کر کام کریں۔ تاہم پارلیمنٹ اگر سول سوسائٹی کی جانب سے تواتر کے ساتھ دہرائی گئی تجویز کو دَرخورِ اِعتِنا سمجھتے ہوئے قانون سازی کے ذریعے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرریاں سی ایس ایس کے امتحان کی طرز پر عمل میں لانے پر قانون سازی کر لے تو اِس سے نہ صرف زیادہ تر جنم لینے والی قباحتیں از خود ختم ہو جائیں گی بلکہ مستقبل میں سیاسی جماعتوں کیلئے بھی یہ عمل ایک اچھا شگون ثابت ہوگا۔
اب ذرا حکومتی سطح پر نان ایشوز کو ایشوز بنانے کی بات ہو جائے!! گورنر پنجاب سے اختلافات پر ایچیسن کالج کے آسٹریلین نیشنل اٹھارویں پرنسپل، مائیکل تھامسن نے سیاسی دراندازی، اقربا پروری اور جانبدارانہ اقدامات سے گورننس تباہ ہونے کا جواز بناتے ہوئے استعفیٰ دے دیا جسے گورنر نے شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے اس استعفے کو انکوائری سے بچنے کا حربہ قرار دیا۔ بعد ازاں ممبر ایچی سن کالج بورڈ آف ڈائریکٹرز سید بابر علی بھی مستعفی ہوگئے۔ واضح رہے کہ یہ سب کچھ ایک دم وقوع پذیر نہیں ہوا۔ ریاستی، حکومتی اور بیوروکریسی کے ایک ایک نمائندے کی کوششوں سے اس نان ایشو کو ایشو ہونے کا سٹیٹس عطا ہو سکا جو یقیناً حکومت کیلئے نیک نامی کا سبب تو نہیں بن سکا البتہ اِس استعفیٰ پر عوام کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا۔
زیرِ بحث تعلیمی ادارے کی بنیاد امبالہ کے وارڈز کالج کی مدد سے 1864ء میں رکھی گئی۔ 2 جنوری 1886ء کو اِسے پنجاب چیفس کالج کا نام دیا گیا۔ 13 نومبر 1886ء کو اس کا نام سر چارلس امپرسٹن ایچی سن کے نام پر چیفس کالج سے تبدیل کر کے ایچی سن کالج رکھا گیا۔ مال روڈ، لاہور پر واقع ایچی سن کالج کا شمار ایک منفرد اور معروف تعلیمی ادارے کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ ایسا کہنا بجا کہ یہ کالج صرف اشرافیہ کے بچوں کیلئے ہی قائم ہوا ہے مگر اِس کالج کو یہ داد تو دیں کہ یہاں کے تعلیم یافتہ سٹوڈنٹس سیاست، وکالت، کھیل اور کاروبار میں نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ڈسپلن پر کاربند رہنے کی وجہ سے یہ کالج ہمیشہ کسی کے اثر و رسوخ، دولت یا کسی اکیڈمی کے سہارے کی ضرورت سے بے نیاز بھی رہا۔
مائیکل تھامسن کی کارکردگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے دوسرے پرنسپل حضرات کے مقابلے میں کالج کو اپ گریڈ کرنے میں کہیں بہتر کام کیا۔ سید بابر علی کے مطابق مائیکل تھامسن 3 نئے بورڈنگ ہاؤسز کیلئے فنڈز اکٹھا کرنے میں کامیاب رہے، بورڈز کی تعداد کو 150 سے 5001 تک بڑھایا، تینوں سکولز میں تدریس کا معیار کافی حد تک بہتر ہوا جس سے تعلیمی نتائج میں بہتری آئی۔ مستعفی ہونیوالے پرنسپل نے اپنے دور میں کالج کے طلبہ کی امریکہ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں پہلے سے زیادہ تعداد میں ایڈمشنز حاصل کرنے کی کامیابی پر تحسین بھی چاہی۔ سابقہ بیوروکریٹ اور موجودہ وفاقی وزیر احد چیمہ کے دو بیٹوں کی تین سال کی فیس معافی کیلئے ان کی بیورو کریٹ اہلیہ نے گورنر پنجاب کو درخواست دی۔ گورنر نے درخواست پر فیس معاف کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا۔ مذکورہ وزیر نے گورنر کو لکھے گئے ایک خط کے ذریعے اپنے بچوں کی فیس معافی کیلئے ایچی سن کالج کی فیس معافی کی پالیسی سے فائدہ اٹھانے سے انکار کرتے ہوئے ایک مشورے سے بھی نوازا ہے کہ دوسرے طلبہ کے فائدے کیلئے فیس معافی کی پالیسی کو جاری رکھا جائے۔ اس مسئلے نے عوام کے اذہان میں چند سوالات کو جنم لینے کا موقع فراہم کیا ہے کہ اگر سابقہ دور میں احد چیمہ شہباز شریف کے ساتھ زیرِ عتاب نہ آتے، اْن کے منظورِ نظر نہ ہوتے اور وفاقی وزیر نہ بنائے جاتے تو کیا یہ نان ایشو، ایشو بن پاتا؟ کیا وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور گورنر پنجاب کو کالج کی پالیسی لائن پر کوئی input دے سکتا یے؟؟ کیا دو بچوں کی فیس معافی کو انا اور تفاخر کا مسئلہ بنا کر ایک شہرت یافتہ ادارے کی بنی ٹھنی ساکھ کو متاثر کرنا عوام کے فائدے میں ہو سکتا ہے؟؟؟
انا پہ وار کے پھینکے ہیں ایسے ویسے بہت
میرا غرور سلامت رہے تیرے جیسے بہت
ایشوز اور نان ایشوز
Mar 31, 2024