مولانا رومی کہتے ہیں جو چیز اعلانیہ محسوس نظر آتی ہے ، وہ اصل نہیں بلکہ اس میں جو چیز اصلی ہے وہ محسوس نہیں ، یعنی بگولا جب اٹھتا ہے تو ہمیں صرف خاک نظرآتی ہے ، لیکن اس خاک کو جس چیز نے حرکت دی وہ حقیقت میں ہوا ہے ، خاک اعلانیہ نظر آتی ہے جو کہ اصل نہیں جو اصل ہے اسے دلائل سے ثابت کرنا پڑتا ہے ،جو کچھ ہمیں دکھائی دیتا ہے ،وہ نمود ہے حقیقت نہیں، ہم آسمان کو دیکھتے ہیں تو جو ہمیں نیلا نظر آتا ہے ، وہ آسمان نہیں در اصل بعد نظر ہے۔
قیام ِ پاکستان کے بعد ہمیں جو اعلانیہ محسوس کرایا گیا وہ اصل نہیں تھا ، حقیقت کو چھپانے سے حقیقت چھپ نہیں جاتی چاہے آپ اسے کسی بھی زاویے سے پرکھیں ، حقائق عشرے، ماہ وسال اور صدیاں بیت جانے کے بعد بھی آخر کار ستم زدہ حالات کے ملبے کا سینہ چاک کر کے ابھر آتے ہیں ،ایسے ہی کچھ اصل حقائق تاریخ کے اوراق نے افشاں کئے ہیں جو کہ دل گرفتہ ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں بااصول، محبِ وطن، ایک زیرک سیاست دا ن ’’ وہ جسے غدار کہتے تھے ‘‘ انہوں نے اپنے افکار، صبر و استقامت سے ثابت کیا کہ وہ حقیقی محبِ وطن تھے اور ملک دشمنوں کے روبرو حق سچ اور وطن پرست ہونے کے ناطے اصولوں پر ڈٹے رہے ، ولی خان نے غداری کے الزام میں قیدو بند کی صعوبتیں بھی کاٹیں اور 70 ء کی دھائی میں انکی پارٹی (نیپ) نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی بھی لگائی گئی ، موجودہ عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی ) در اصل نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی سسٹرپارٹی ہے ، ولی خان اور ان کی پارٹی نے ہمیشہ ملک میں قیام امن کی بات کی ہے ، اور انتظامی امور میں عسکری مداخلت (مار شل لاء) کی سخت مخالفت اور عسکری بجٹ میں کٹوتی کا مطالبہ کرتی رہی ہے تاکہ بجٹ کو عوامی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کیا جاسکے ، کیا یہ خیالی نقطہ ولی خان اور ان کی پارٹی پر غداری کی وجہ بنا ؟ اس کے پسِ پردہ عوامل کچھ اور ظاہر کرتے ہیں۔
ولی خان کو قیام پاکستان کے بعدملک میں بر سرِ اقتدار آنے والی ہر حکومت نے اقتدار میں شمولیت کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا لیکن ولی خان نے چور دروازے سے حکومت میں شامل ہونے سے صاف انکار کیا ، پاکستان کے تیسرے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے ولی خان کو ملاقات کیلئے بلا کرکہا ’’کہ خان تم عظیم انسان ہو ، تمہیں چاہئے کہ ہمارے ساتھ مل کر قوم اور ملک کی خدمت کرو ‘‘ ولی خان نے کہا ’’ یہ نہیں ہو سکتا ایک طرف تو میں آپ کی حکومت میں شامل ہو جائوں دوسری طرف آپکے وزراء مجھے غدار کہتے رہیں ، میں یہ نہیں چاہتا کہ غداری کا لیبل میری ذات سے بڑھ کر حکومت کے وجود تک جائے ، اپنی حد تک میں الزام برداشت کر رہا ہوں ، لیکن جب میری ذات کے حوالے سے حکومتِ پاکستان کو غدار کہا گیا تو یہ میرے لئے نا قابلِ بر داشت ہوگا ‘‘۔
اسکندر مرزا نے ولی خان کو بلا کر کہا کہ ’’ تم کام کیوں نہیں کرتے تم ایک با صلاحیت نوجوان ہو، سیاست کی آخری منزل اقتدار ہے ، اقتدار تمہیں بلا رہا ہے ، تم آئو ہمارے ساتھ مل کر کام کرو ‘‘ ولی خان نے کہا کہ ’’ میں چور دروازے سے آنے کیلئے تیار نہیں میں حکومت میں جب بھی آئوں گا قوم کے اعتماد کا ووٹ لے کر آئوں گا ‘‘۔
ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان نے بار ہا ملاقات کیلئے بلایا لیکن ولی خان نے ملنے سے انکار کر دیا تو ایوب نے متعدد شخصیات کوولی خان سے ملاقات کا ٹاسک سونپا ، ایوب خان کے مسلسل اصرار پر ولی خان ان سے ملنے گئے ، ایوب خان نے کہا ولی خان تم میرے پسندیدہ آدمی ہو ، تمہاری صلاحیتیں کسی بڑے قومی مقصد کیلئے صرف ہونی چاہئے، ولی خان یاد رکھو ہم جب تک مشرقی پاکستان سے جان نہیں چھڑاتے ملک ترقی نہیں کر سکتا ہمیں یہ کام کرنا ہو گا ، میں یہ چاہتا ہوں کہ تم ہمارے ساتھ مل کر کام کرو ‘‘ ولی خان انتہائی غصے سے بولے ’’خان صاحب ! بات کرنا سیکھئے، آپ نے پٹھان ہونے کے باوجود ہمیں سمجھنے میں غلطی کی ہے ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں آپ کی مدد نہیں کر سکتے ، بلکہ مشرقی پاکستان کو بچانے کیلئے ہر اس طاقت کے ساتھ اتحاد کریں گے جو ان لوگوں کو اقتدار سے الگ کریگا ، جو مشرقی پاکستان کے خلاف سازش کر رہے ہیں، آپ نے ہمیں ملک دشمن سمجھ رکھا ہے ، جو ملک توڑنے کیلئے آپ ہم سے جوڑ توڑ کرنا چاہتے ہیں ، پاکستان ہمارا ہے ، ہم اس کی سا لمیت کی حفاظت کریں گے ، ہم اسکی حفاظت کیلئے خون بھی دیں گے ، جان بھی دیںگے ‘‘۔
یہ اس شخص کے الفاظ ہیں جس کو غداری کا طوق پہنایا گیا اور یہ طوق آج تک اسکی پارٹی اور ذات سے نہیں اتر سکا ، ایک اور بھی غدار تھا جسے اس کی قوم نے مار ڈالا، اس غدار کو بھی پاکستان سے علیحدہ ہونے کا جب پیغام بھیجا تو اس نے کہا کہ اکثریت میں کون ہے ، پیغام رساں نے کہا کہ آپ ، غدار نے جواب دیا تو پھر ہم پاکستان ہیں آپ نے علیحدہ ہونا ہے تو ہوجائو ہم نے پاکستان بنایا ہے ہم پاکستانی ہیں۔
یہ تاریخی تلخ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ محبان وطن کو ایک مذموم سازش اور ایجنڈے کی تکمیل کو پورا کرنے کیلئے عوام الناس میں غداری کے مشکوک الفاظ کا سہارا لے کرپاکستان کودو لخت کیا گیا اور الزام سیاست دانوں کے سر تھونپ دیا ،مفروضوں پر مبنی ملکی سا لمیت کے خلاف گھنائونے کھیلنے والوں کا انجام بھی تاریخ میں رقم ہے ، لیکن حیف کہ مصلحتوں کے شکار ملکی آمریت کے نظام میں انکی زندگی میں احتساب نہیں ہوا ، جو کہ ایک قومی سانحہ ہے۔