چند برسوں سے ملک میں یونیورسٹیوں کو مالی بحران کا۔سامنا ہے۔ متعدد جامعات کو تو تنخواہوں کی ادائیگی کے لالے پڑے ہیں۔۔ڈویلپمنٹ کی مد میں فنڈز نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں جس سے علم تخلیق کرنے والے ان اداروں کے چہرے زردی مائل ہوچکے ہیں۔ ان جانا خوف فیکلٹی، سٹاف اور سکالرز میں سرائت کر چکا ہے۔ مالی بحران کی وجوہات سے پہلے یہ فتویٰ شاید بے جا نہیں ہے کہ یونیورسٹیوں نے کئی سال پہلے کی وارننگ پہ کان نہیں دھرا جس میں وفاق کی جانب سے یونیورسٹیوں کو یہ پیغام پہنچا دیا گیا تھا کہ گرانٹس بتدریج کم کردی جائے گی لہذا یونیورسٹیاں اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونا سیکھیں۔ اس وارننگ کو نظر انداز کیا گیا۔ ریونیو بڑھانے کے طریقے ایجاد کئے نہ اپنائے۔ صرف فیسوں میں اضافہ یونیورسٹیوں کی بقا کیلئے کافی نہیں ہے۔ فیس جتنی بھی زیادہ کر لیں، اخراجات میں کمی اور کمائی کے دیگر ذرائع کو اختیار کئے بغیر خوش حالی ممکن نہیں۔ دیگر ذرائع میں باوقار طریقے سے فنڈز پیدا کرنے کی امثال اور پوری گنجائش موجود یے۔ انڈسٹری لنکیج سے paid research یعنی انڈسٹری کی ڈیمانڈ کے مطابق انڈسٹری کی روم سے تحقیق سب سے قابل عمل آئیڈیا ہے۔ اربوں کی عمارات، انفراسٹرکچر، اراضی اور گراؤنڈز کو کیسے کمائی کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے یہ ماہرین علم سے بہتر کون بتا سکتا ہے؟ پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سپیشل سیکرٹری منیب الرحمن سے ایک ایونٹ میں ملاقات ہوئی تو ان کو اس معاملے پر بڑا متفکر پایا۔ لاہور میں ایک بڑی یونیورسٹی کا نام لے کر ماتھے پر ہاتھ رکھ لیا کہ وہ اڑھائی ارب کے خسارے میں ہے۔ اس خاکسار نے ان کو تجویز دی کہ آپ کا محکمہ ایڈمنسٹریٹو ڈیپارٹمنٹ ہے سب وائس چانسلرز سے پہلے مرحلے میں تجاویز طلب کریں کہ یونیورسٹیوں کے ریونیو کو کیسے بڑھایا جاسکتا ہے اور پھر دوسرے مرحلے میں سب وائس چانسلرز کی ایک کانفرنس منعقد کرائیں، ڈونر محکمے، انڈسٹری کی قیادت اور بزنس ٹائیکونز کو ایک چھت کے نیچے جمع کرکے ڈائیلاگ کیا جائے تو ان گنت حل سامنے آسکتے ہیں۔ ان کو تجویز پسند آئی اور عملدرآمد کا بھی وعدہ کیا۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ وائس چانسلر تعینات کرتے ہوئے ان کے فنڈ جنریشن وڑن کو بھی اہمیت دی جائے۔ اس صورت میں یونیورسٹیوں کو ایسی قیادت نصیب ہوگی جو ریونیو بڑھانا اور خودکفالت کی طرف گامزن ہونا جانتی ہوگی۔ خبریں آئی تھیں کہ وفاقی اردو یونیورسٹی مالی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی ہے، وفاقی حکومتوں کی عدم توجہی اور چانسلر سیکریٹریٹ کی غیر سنجیدگی اور لاتعلقی کے سبب قومی زبان اردوکے نام پر قائم کی گئی یہ جامعہ اپنے قیام کے 20ویں برس عملی طور پر دم توڑ رہی ہے۔ قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر روبینہ مشتاق کی جانب سے صدر پاکستان کی جانب سے یونیورسٹی سینیٹ کے بلائے گئے اجلاس کے سلسلے میں لکھے گئے آفیشل خطوط سے یونیورسٹی کی پتلی مالی حالت کا انکشاف ہوا۔ پہلی بار یونیورسٹی کے بدترین مالی خسارے سے جڑے معاملات کو سینیٹ کے اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ بھی بنالیا گیا۔ خطوط سے انکشاف ہوا کہ نومبر2023 سے اردو یونیورسٹی اپنے ملازمین کو تنخواہیں اور پینشن ادا کرنے کے ساتھ ساتھ روزمرہ امور نمٹانے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہی ہے۔ سیاسی مقاصد کے لیے یونیورسٹیز کا قیام بھی انحطاط کا ایک سبب ہے۔
دور دراز کے علاقوں میں سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے قائم کی جانیوالی یونیورسٹیاں جلد ہی مشکلات میں پھنس گئیں۔ سیاستدانوں نے زیادہ تر جامعات محض اپنے لوگوں کو نوکریاں دلانے کے لیے کھولیں۔ان یونیورسٹیز کے قیام سے تعلیمی معیار پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے عملے کی کمی کے ساتھ ساتھ انہیں وسائل کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ خیبر پختونخوا میں اس وقت 32 سرکاری جامعات ہیں جن میں دو لاکھ سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں۔جامعات 2017تک مالی لحاظ سے خود کفیل تھیں اور کبھی بھی جامعات نے صوبائی حکومت سے مالی امداد کے لیے رجوع نہیں کیا تھا لیکن بعد کے برسوں میں صورت حال الٹ ہو گئی۔ تحقیق کے لیے کسی بھی یونیورسٹی کے پاس ایک روپیہ نہیں ہے۔ صوبائی حکومتیں اپنی یونیورسٹیوں کو میچنگ گرانٹس دیتی ہیں یعنی جتنے پیسے ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان دیتا ہے اتنے ہی پیسے صوبائی حکومتیں دیتی ہیں جس کی وجہ سے یونیورسٹیاں اپنے مالی اخراجات پوری کرتی ہیں۔ اس میچنگ گرانٹ میں بھی اتنی کمی آگئی ہے کہ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔2007 کاہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد کا بجٹ موجودہ بجٹ سے زیادہ تھا۔مگر اس کے بعد حکومتوں کی ترجیحات بدل گئیں حکومتوں نے نئی یونیورسٹیاں بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جتنی یونیورسٹیاں ساٹھ سال میں بنی تھیں ان سے دوگنی یونیورسٹیاں بنائیں چن چن کر اپنے ورکر ان یونیورسٹیوں میں بھرتی کروائے یہاں تک کے چند ایک یونیورسٹیوں میں طلبا کی تعداد سینکڑوں میں تھی اور وہاں ملازمین کی تعداد ہزاروں میں چلی گئی تھی مگر ان یونیورسٹیوں کو چلانے کے لیے وسائل دینے کا انتظام نہیں کیا گیا یوں ہر شہر میں یونیورسٹیاں بن گئیں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی فنڈنگ کم ہوتی چلی گئی شروع میں یونیورسٹیوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ طلبا کی فیسوں میں اضافہ کردیا جائے اور یہ اضافہ اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ دنیا میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اب حال یہ ہے کہ عوام کی قوت خرید کم ہوگئی ہے اور یونیورسٹیوں کو داخلے کی تعداد ہوری کرنے میں دقت کا سامنا ہے۔ پاکستان میں یونیورسٹی کے اساتذہ کو جو تنخواہ دی جاتی ہے وہ پوری دنیامیں سب سے کم ہے یورپ اور امریکہ جاپان کے یونیورسٹی اساتذہ پاکستانی اساتذہ کے مقابلے سو گنا سے زیادہ تنخواہ لیتے ہیں اور ان کو ریسرچ گرانٹس کی صورت میں اربوں روپے دئیے جاتے ہیں جبکہ یہاں صورتحال یہ ہے کہ بی پی ایس کی تنخواہ معہ دیگر مراعات کے جو سرکاری ملازمین کو ملتی وہ یونیورسٹی کے ملازمین کو نہیں ملتی حکومت نے پورے پاکستان کے ملازمین کوDRA دیا کئی مرتبہ دیا مگر یونیورسٹی ملازمین کو وہ نہیں دیا گیا۔ اس سے یونیورسٹی کے اساتذہ میں بے دلی کا پیدا ہونا لازمی امر ہے اس لیے کے مجودہ مہنگائی کے دور میں جو کم ترین مالی مراعات پاکستان کے دوسرے شعبوں میں کام کرنے والے ملازمین کو حاصل ہیں وہ ان کو نہیں مل رہے حالانکہ یہ سب اساتذہ معاشرے کا کریم ہیں یہ تمام پاکستان کے دیگر ملازمین سے زیادہ تعلیم یافتہ اور فعال طبقہ ہے یونیورسٹیوں میں بے شمار ایسے ٹیچر ہیں جنہوں نے سی ایس ایس پاس کرنے کے بعد جب ان کو یونیورسٹی ٹیچنگ کی ملازمت ملی تو انہوں نے سی ایس ایس والی جاب چھوڑ کر یونیورسٹی کو جائن کیا مگر کزشتہ چند برسوں سے یونیورسٹیوں سے بدترین برین ڈرین ہورہا ہے جس کا سبب حکومت کی غلط پالیسیاں ہیں۔ دنیا بھر میں تعلیم اور صحت کے شعبہ میں حکومتیں سرمایہ کاری کرتی ہیں تاکہ ان کو پڑھے لکھے اور صحت مند ورکر ملیں مگر ہمارے ہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے حکومت کو یونیورسٹیوں کے مالی صورتحال بہتر کرنے کی طرف فوری توجہ دینی چائیے اور دیگر غیر ضروری کاموں سے پیسے نکال کر یونیورسٹیوں کودینا چائیں اس لیے کہ پاکستان کا مستقبل ان تعلیمی اداروں سے وابستہ ہے یہ ادارے خراب ہوگئے تو آپ اندازہ لگائیں کہ مستقبل میں باقی اداروں کو ورک فورس کون مہیاکرے گا۔دنیا ان قابل لوگوں کی قدر کرتی ہے ان کو اپنے ملکوں میں بسانے کے لیے مراعات دیتی ہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تمام قابل لوگ جن پر حکومت پاکستان نے بہت زیادہ خرچہ کیا ہے وہ دلبرداشتہ ہوکر کینیڈااور مشرقی وسطی کے ممالک کی طرف جائیں۔
ان یونیورسٹیوں میں وہ ہزاروں پی ایچ ڈی اساتذہ بھی ہیں جنہوں نے دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہے۔ان پر حکومت کے اربوں روپے خرچ ہوئے ہیں لیکن آج یہ حال ہے کہ وہ بروقت سکول میں پڑھنے والے اپنے بچوں کی فیسیں ادا نہیں کرپارہے جبکہ ماسٹر سیکنڈ ڈویڑن میں پاس کرنے والے صوبائی انتظامی ملازمین یونیورسٹی کے پروفیسر کی تنخواہ سے زیادہ صرف الاونس لیتے ہیں ان کو قیمتی گاڑیاں دی گئی ہیں پیڑول کی مد میں ان کو ہزاروں روپے دئیے جاتے ہیں ان کو سال میں کئی مرتبہ بونس بھی دئیے جاتے ہیں جبکہ ان کو پڑھانے والوں کو اپنی تنخواہ کے لیے خوار کیا جارہا ہے۔وسائل کی منصفانہ تقسیم اور تنخواہوں اور مراعات میں تفاوت کو فوراً ختم کرکے ضروریات کا تجزیہ کرکے سب کے لیے یکساں اجرت کا نظام لایا جائے اور ترجیح علم اور قابلیت کی بنیاد پر دی جائے جیسے تمام دنیا میں دی جاتی ہے ورنہ انجام پھر یہ ہوگا کہ سکول کالج اور یونیورسٹی کا استاد پولیس ،کسٹم، ایکسائز، پٹوار میں گریڈ گیارہ میں بھرتی ہونے کوترجیح دے گا وہ لیکچرر بھرتی ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں لے گا۔ چند برسوں سے پرائیویٹ یونیورسٹیاں بڑی تیزی سے بنی ہیں اور کامیابی سے چلایی جا رہی ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کی کامیابی کی ایک وجہ تو ہائی فیس سٹرکچر ہے لیکن ان کی اصل کامیابی اچھی مینجمنٹ ہے جس کا اہم عنصر قابل افراد کو بہترین سیلری پیکیج دینا ہے۔ اس کے علاوہ وہ آپریشنل اخراجات قابو میں رکھتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ سٹاف کی بھرتی ادارے تباہ کر دیتی ہے۔ علاوہ ازیں نجی یونیورسٹیاں انڈسٹری سے اچھا اور مضبوط رابطہ رکھتی ہیں اور نت نئے آئیڈیاز انڈسٹری کو فروخت کرکے ریونیو بڑھا رہی ہیں۔ سرکاری شعبے میں یونیورسٹیوں کے پاس دستیاب وسائل نجی شعبے سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ صرف ان وسائل کو دانشمندی سے مثبت استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کیلئے کچھ حوصلہ وائس چانسلرز پیدا کریں اور کچھ آزادی حکومت ان کو فراہم کرے اور بے جا اعتراضات عائد نہ کرے۔ اگر کوئی وائس چانسلر اپنی ٹیم سے مل کر یونیورسٹی کیلئے کوئی بزنس پلان لاتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی وقت کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹیوں کو ہر قسم کے بزنس پلان میں طلباء کو بھی شریک کرنا چاہئے اور انہیں بابو بنانے کی بجائے بزنس میں آنا سکھائیں۔ آنے والے وقت میں مچھلی کھانے کے عادی افراد کی گنجائش نظر نہیں آتی لہٰذا یونیورسٹیاں اپنے سٹوڈنٹس کو مچھلی شکار کرنا سکھائیں۔ علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا کہ:
اس رہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے
چلنے والے نِکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا، کْچل گئے ہیں