گلزار ملک
اس دنیا کی تیز رفتار دوڑ میں پیار ، محبت اور احساس کے رشتے ختم ہوتے جا رہے ہیں ہر طرف ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے جبکہ انسان یہ جانتا بھی ہے کہ یہ دنیا ایک مختصر سا ٹھکانہ ہے اس کے باوجود نہ جانے اس انسان کو کیا ہو گیا ہے کبھی کبھی تو خون کے رشتوں میں بھی ایک سفیدی نظر آنے لگتی ہے کسی نے کیا خوب کہا کہ رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں احساس ہو تو پرائے بھی اپنے لگتے ہیں اور احساس نہ ہو تو اپنے بھی پرائے محسوس ہوتے ہیں اور کچھ لوگ آنسوؤں کی طرح ہوتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ساتھ دے رہیں ہیں کہ چھوڑ رہے ہیں۔
انسان فطری طور پر ایک سماجی جاندار ہے۔ وہ تنہا زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ جنت سے نکالے گئے انسان کو فطرتاً خوبصورت اور حسین چیزیں پسند ہیں۔ حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا جب زمین پر آئے تو اِنہوں نے زندگی گزارنے کے لیے کئی چیزوں کی ضرورت محسوس کی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی زمین پر آدم اور اولادِ آدم کی ضرورت تمام اشیاء مہیا کر دیں تھی مگر ان کو تلاش کرنا اولادِ آدم کی ذمہ داری ٹھہری۔ ضرورت کے تحت انسان نے اشیاء کو تلاش کرنا شروع کیا اور اپنی ابتدائی ضروریات کو پورا کیا۔ انہی ضرورتوں میں سے انسان کے لیے ایک لازمی چیز رشتوں ناطوں کا بندھن تھا۔ انسان کے زمین پر آنے کے بعد رشتے پیدا ہوئے اور جو پہلا رشتہ بنا وہ میاں بیوی کا رشتہ تھا۔ اس کے بعد ماں باپ ، دادا ، دادی ، نانا نانی ، بہن ، بھائی، چچا ، چچی ، خالہ خالو ، ماموں ممانی وغیر ہ وغیرہ بنتے چلے گئے اور انسان اِن رشتوں میں الجھتا چلا گیا۔ انسان کا پہلا قتل بھی اِنہی رشتوں کی وجہ سے تھا جس میں ایک بھائی قابیل نے دوسرے بھائی ہابیل کو قتل کیا اِن رشتوں ناطوں کا عمل فطری ہے اور اب تک چلا آرہا ہے اور چلتا رہے گا۔ اِن رشتوں ناطوں میں ایک چیز جو حضرتِ انسان نے خود شامل کردی ہے وہ لالچ ، طمع اور ضرورت ہے۔ فطرت تو بے لوث محبت سکھاتی ہے چاہے وہ انسان ہو ، جانور ہو یا کوئی چرند پرند۔ مگر انسان نے اپنی اِس فطری محبت کو ضرورت میں بدل دیا۔ ایک دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو یہ سب رشتے ناطے صرف ضرورت اور مفادات کے ہیں۔ بچوں کو ماں باپ کی ضرورت ہوتی ہے تبھی وہ پیارے لگتے ہیں کیونکہ اِن کے بغیر کوئی بھی بچوں کی ضروریات کو پورا نہی کر سکتا۔ اگر ماں باپ بچوں کی خواہشات اور ضروریات کو پورا نہ کر سکیں توان کو اپنے والدین سے نفرت ہو جاتی ہے۔ ماں باپ اپنی اولاد کو اس لیے پالتے ہیں کہ وہ بڑھاپے میں ان کا سہارا بنیں گے۔ اس کا ثبوت ہمارے معاشرے میں اولاد ِنرینہ کی خواہش ہے۔
وہ اپنی زندگی کی تمام جمع پونجی اپنی اولاد پر لگا دیتے ہیں تاکہ ان کی اولاد کا مستقبل اور ان کا بڑھاپا محفوظ ہو جائے، اور اگر یہی اولاد اِن کی خوہشات کا احترام نہ کرے تو وہ والدین کے لیے باعثِ ندامت اور نفرت کا موجب ہو جاتی ہے۔ جس کی مثال ہمارے معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل اور عاق نامہ کی صورت میں نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ماں باپ اور اولاد کا رشتہ سچی اور بے لوث محبت پر مبنی ہے تو پھر اولاد کے جوان اور خود مختار ہو جانے پر ماں باپ کی محبت کم ہو کر اِن کی اہمیّت میں کمی کا موجب کیوں ہو جاتی ہے۔؟ اگر میاں بیوی کا رشتہ پْرخلوص چاہت اور محبت ہے تواولاد کے پیدا ہو جانے کے بعد اِن کی محبت میں کمی کیوں آجاتی ہے۔ کئی کئی سال ساتھ زندگی گزارنے والے میاں بیوی ایک دوسرے کے مزاج کے خلاف کیوں ہو جاتے ہیں ، اور بچوں کی شادیاں طے کرتے وقت اس قدر خود غرض اور ظالم کیوں ہوجاتے ہیں۔ اگر شوہر بیوی کے ہر آرام و آسائش کا خیال رکھے تو وہ اچھا اور مثالی انسان ہے اور اگر وہی شوہر کسی وجہ سے بیوی کی ضروریات پوری نہیں کر سکتا تو وہ بْرا کیوں ہو جاتا ہے۔؟ ایک ہی گھر میں پیدا ہونے اور پرورش پانے والے بہن بھائی بڑے ہو کر ایک دوسرے سے دور کیوں ہو جاتے ہیں۔ بچپن میں ایک دوسرے سے ایک بھی لمحہ دور نہ رہنے والے دوست بڑے ہو کر ایک دوسرے کے لیے اجنبی کیوں ہو جاتے ہیں۔؟ خونی رشتہ دار ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں ہو جاتے ہیں۔ کسی شاعر نے کہا تھا
خون کے رشتوں میں ہوتی گر محبت اے ظفر
تو کبھی یوسف نہ بِکتا مصر کے بازار میں
انسان خدا کی عبادات بھی اپنی ضرورت کے لیے کرتا ہے۔ جیسے ہی کوئی مشکل وقت آتا ہے انسان کو خدا یاد آجاتا ہے اور جونہی مشکل ٹلی انسان اپنی دنیا میں دوبارہ مگن ہو کر اپنے خالق تک کو بھول جاتا ہے۔ ہر عبادت اور تقوٰی میں انسان کی کوئی نہ کوئی ضرورت چھپی ہوتی ہے۔ خیرات کرے گایا تو لوگوں کو دکھانے کے لیے یا پھر اپنے رزق میں اضافے کے لیے۔ جنت میں موجود چیزوں کے حصول کی تمنا انسان کو عبادات پر قائم رکھتی ہے۔ انسان بے شک اسے محبت کا نام دے مگر پسِ پردہ انسان کی خواہش ان نعمتوں کا حصول ہے۔ علم کا حصول بھی دنیا میں بلند مقام حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے نہ کہ اپنے خالق کی پہچان کے لیے۔ اپنی اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے علم جیسی چیز کو بھی کہیں بیچا جا رہا ہے ، کہیں خریدا جا رہا ہے اور کہیں لوگوں پر اپنا علم زبردستی نافذ کیا جا رہا ہے۔ الغرض انسان اپنی ضرورتوں کے لیے سب کچھ کرتا ہے چاہے وہ علم کا حصول ہو عبادتِ خدا ہو ، خدمتِ خلق ہو یا رشتے ناطوں کا نبھا ہو ایسا کیوں لگتا ہے کہ ہر رشتے کو نبھاتے وقت اس کی ضرورت ہوتی ہے تبھی وہ بطریقِ احسن نبھایا جاتا ہے اور جیسے ہی اس کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے وہ رشتہ اپنی موت خود مر جاتا ہے۔ کوئی نہ کوئی ضرورت ضرور پنہاں ہوتی ہے ، بغیر مطلب اور ضرورت کے شاید کوئی رشتہ نبھایا ہی نہیں جا سکتا۔ شاعر نے کہا کہ
ضرورت کا ہے ہر رشتہ
جسے زمانہ محبت پکارے
مر گیا احساس جاتا رہا احترام زمانہ محبت پکارے
Mar 31, 2024