غزہ قرارداد کی منظوری' مسلم حکمرانوں کا نیا امتحان

Mar 31, 2024

امتیاز اقدس گورایا


  بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com

4 بار کی ناکامی' 168 دن گزرنے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 23 مارچ 2024ء (14 رمضان المبارک) کو فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کرلی۔ یہ قرارداد الجزائر ' جاپان' ایکواڈور، سوئٹرز لینڈ' جنوبی کوریا اور مالٹا کی طرف سے پیش کی گئی۔ اس سے قبل جنگ بندی کی قراردایں غیر معمولی اجلاس میں پیش کی جاتی رہیں جسے امریکہ مسلسل ویٹوکرتا رہا' وہ جارجیت' بارود کی بارش اور میزائل حملوں کو اسرائیل کا حق دفاع سمجھتا رہا۔ ہر بار قرارداد کو ویٹو کرنے کے بعد امریکہ اسرائیل کی امداد میں اضافہ کردیتا، 37 ہزار مسلمانوں کی شہادت ' 12 ہزار زندگیوں کو خاک کا رزق بنانے والی جارحیت نے دنیا کے سامنے اسرائیلی درندگی اور امریکہ کی جانب  داری کا پردہ چاک کر دیا۔ مہذب معاشروں میں  امریکہ کو اسرائیل کی مسلسل حمایت کی بھاری قیمت دینا پڑرہی ہے۔ آج دنیا بھر میں اس کے خلاف بڑے مظاہرے اس کی حیثیت، موجودگی اور جانب داری کو چیلنج کررہے ہیں۔ طرفہ تماشا دیکھیں !! سلامتی کونسل کے 15 ممبران  میں سے 14 نے جنگ بندی کے حق میں ووٹ دیا امریکی ممبر غیر حاضر رہا، گویا امریکہ نے خود کو قرارداد کی حمایت سے دور رکھ کر اسرائیل کو خوش کرنے کی جو کوشش کی اسے اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو کے تندو تیز ردعمل نے خاک میں ملا دیا۔ قرارداد کی منظور ی کے روز بھی اسرائیل درندگی اور جارحیت نے 90 مسلمانوں کا خون پہیا یہ وہ معصوم شہری تھے جو امداد  کے لیے امدادی قافلے کے ارد گرد موجود تھے۔
7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل نے جارحیت شروع کی چھ ماہ بارود کی مسلسل بارش ہوئی 37 ہزار مسلمانوں کی زندگی چھینی گئی  12 ہزار بچے شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے۔ عمر بھر کے لیے معذور ہونے والوں کی تعداد ناقابل بیان ہے۔ پورا غزہ قبرستان بن چکا ،تباہی کی اتنی بڑی داستان تو دوسری جنگ میں بھی نہیں دیکھی گئی۔ اس ساری صورت حال کا تکلیف دہ  اور روح شکن پہلو اسلامی قیادت ، 17 مسلم ریاستوں اور سوا ارب مسلمانوں کا کردار تھا۔ مسلم حکمران بے پناہ وسائل رکھنے کے باوجود اسرائیل کے خونیاں قدم روک سکے نہ اسے حارجیت کا جواب دے سکے بلکہ پوری مسلم قیادت خواب غفلت کا شکار رہی۔ ان کے نزدیک اہل غزہ کے لیے امدادی سرگرمیاں اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے خلاف صرف آواز بلند کرنا ہی فلسطین دوستی ہے۔23 مارچ سے تل ابیب میں ہونے والا مظاہروں میں یہودیوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، اپنے وزیراعظم نتین یاہو کے خلاف یہودی پھٹ پڑے ۔ مطالبہ نیتن باہو کا  استعفیٰ ہے۔ مظاہرین کا خیال ہے کہ یہ جنگ نہیں جارحیت ہے ' اسرائیل حکومت امریکی حمایت سے یک طرفہ جنگ کی لا حاصل مشق کررہی ہے۔ بے گناہوں کا خون نیتن یاہوکے سر ہے۔ دنیا کی حمایت ختم ہوگئی ، مہذب ممالک اور باشعور شہری یہودیوں کے مخالف ہورہے ہیں ان سب ناپسندیدہ سرگرمیوں کے پس پردہ اسرائیلی حکومت اور اس کے سربراہ نیتن یاہو کے سوا کون ہے؟سات دن قبل ایک باہمت نوجوان کی وڈیو وائرل ہوئی جس میں نوجوان کو فلسطینی پرچم تھامے مشہور عالمی برانڈ کے پاکستانی ریسورنٹ میں دیکھا جاسکتا ہے۔نوجوان پیغام اقبال ان لوگوں تک پہنچاتا نظر آتا ہے جو ریسٹورنٹ پر غزہ  کے حالات سے بے خبر کھانے پینے میں مصروف ہیں۔پاکستانی نوجوان کا پیغام تھا کہ ہم کیسے مسلمان ہیں جن کے دل فلسطینی مسلمان بھائیوں کے لیے ڈھرکتے نہیں ؟ہمیں ان کا درد محسوس کیوں نہیں ہوتا ؟کیا ہمیں یہ معلوم نہیں کہ آپ کے پیسے (منافع) کو وہ مظلوم فلسطینیوں کے خلاف استعمال کریں گے۔خوف کرو' حیاء￿  کرو، کچھ نہیں تو اپنے دین کا ہی لحاظ کرلو…!! امیر المومنین امام علی  نے فرمایا''جب تم دوسروں کا درد محسوس کرکے بے چین ہو جاؤ تو سمجھو تم مومن بن گئے ''ہمیں غزہ کے مظلوموں کی آہ وبکا کیوں سنائی نہیں دیتی؟ پورا غزہ قبرستان بن چکا ،غزہ میں شائد ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں شہداء کے وراثان موجود نہ ہوں۔
حیرت ناک پہلو دیکھیں غزہ کے متاثرین تک امداد پہنچی نہ مسلمانوں نے یہودی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ اسلامی ممالک میں یہودی برانڈ کے فاسٹ فوڈز پورے طمطراق سے مصروف رہے۔ پاکستان میں کرکٹ کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ کو سپانسپر کرنے والوں میں یہودی برانڈ کے شراکت دار بھی شامل تھے۔ پورے غزہ کو قبرستان بنا کر ہم نے کیا حاصل کرلیا؟ اصل سبق یہ ہے کہ جنگ بندی کی قرارداد کی منظوری سے فلسطینی جیت گئے ، مسلم حکمران ہار گئے…!!صابر اور شاکر اہل فلسطین مسلم قیادت کو یہ درس دے رہے ہیں کہ وہ متحد ہو جائیں ' طاقت پکڑیں اور اپنے وسائل اپنے آپ پر خرچ کریں۔علم وٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کرلیں اگر وقت گزارنے اور دوسروں کی حاشیہ برادر بننے کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو اہل غزہ کی طرح  امت کو اس کی  بھاری قیمت دینا پڑے گی۔
 ٭…اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ
چودہ رمضان ، 25 مارچ کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ منظور کرلی، قراردار ویٹو نہ کرنے پر اسرائیل کا اپنا وفد امریکہ نہ بھیجنے کا اعلان۔ جنگ بندی کی قرارداد منظور کرتے ہوئے تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔امریکہ نے اس قراردار پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ سلامتی کونسل کے 15میں سے 14 ارکان نے قرارداد کی حمایت کی۔فوری جنگ بندی کی یہ قرارداد سلامتی کونسل کے 10 رکن ممالک نے پیش کی۔واضح رہے کہ غزہ کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 32 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔اسرائیل پر فلسطین میں جاری کارروائیوں کے بعد سے عالمی د?نیا کی جانب سے دباؤ کا بھی سامنا ہے کہ وہ اس بات کے شواہد بھی د?نیا کے سامنے پیش کرے کے اس کی کارروائیاں صرف حماس کے خلاف ہیں۔اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ حماس کے سات اکتوبر کے حملوں میں 1200 افراد کی ہلاکت کے جواب میں اب تک حماس کے 10 ہزار جنگجو فضائی حملوں اور زمینی کارروائیوں میں مارے گئے ہیں۔اسرائیلی فوج نے مسلسل اپنی حکمت عملی کا دفاع کیا ہے اور م?صر ہے کہ وہ عام لوگوں کی ہلاکتوں کو کم سے کم رکھتے ہوئے صرف حماس کے جنگجوؤں اور تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسرائیل نے اپنا وفد امریکہ نہ بھیجنے کا اعلان کیااقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد کی منظوری کے فوراً بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکہ پر اپنے سابق موقف سے 'پیچھے ہٹنے' کا الزام لگایا ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ 'امریکہ نے اقوام متحدہ میں آج اپنی پالیسی ترک کر دی۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی امریکہ نے سلامتی کونسل کی ایک قرارداد کی حمایت کی تھی جس میں جنگ بندی کے مطالبے کو یرغمالیوں کی رہائی سے جوڑا گیا تھا۔چین اور روس نے اس قرارداد کو جزوی طور پر ویٹو کیا تھا کیونکہ انھوں نے ایسی جنگ بندی کی مخالفت کی تھی جس کا تعلق یرغمالیوں کی رہائی سے تھا۔ پھر بھی آج، روس اور چین نے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اس نئی قرارداد کی حمایت کی کیونکہ اس کا ایسا کوئی تعلق نہیں۔'افسوس کے ساتھ امریکہ نے اس نئی قرارداد کو ویٹو نہیں کیا، جس میں ایسی جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا، جو یرغمالیوں کی رہائی پر منحصر نہیں۔ یہ جنگ کے آغاز سے ہی سلامتی کونسل میں امریکہ کے مستقل موقف سے الگ ہے۔'اسرائیلی وزیر اعظم نے مزید کہا گیا ہے کہ 'آج کی قرارداد حماس کو امید دلاتی ہے کہ وہ بین الاقوامی دباؤ کی بدولت اسرائیل کو اپنے یرغمالیوں کی رہائی کے بغیر جنگ بندی پر مجبور کرے گا، اس طرح جنگی کوششوں اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوشش دونوں کو نقصان پہنچے گا۔
 'وزیر اعظم نیتن یاہو نے رات ہی واضح کیا تھا کہ اگر امریکہ اپنی اصولی پوزیشن سے پیچھے ہٹتا ہے اور اس نقصان دہ قرارداد کو ویٹو نہیں کرتا تو وہ اسرائیلی وفد کا دورہ امریکہ منسوخ کر دیں گے۔ امریکی پوزیشن میں تبدیلی کو سامنے رکھتے ہوئے وزیر اعظم نیتن یاہو نے فیصلہ کیا ہے کہ وفد اسرائیل میں ہی رہے گا۔'

مزیدخبریں