( خنساء سعید)
ایک ریڑھی والے نے شب و روز محنت کر کے اپنی کمائی اپنے جوان بیٹے کی پڑھائی پر لگا دی۔بیٹا پڑھ لکھ کر ڈگری یافتہ ہوا ، نوکری ملی، اچھی تنخواہ لگی ، نوکری کے پہلے دن نوجوان لڑکا آفس جاتے ہوئے راستے میں خونی دھاتی ڈور کے سامنے زندگی کی بازی ہار گیا۔غریب باپ بیٹے کے دیکھے گئے حسین خواب خون میں نہا گئے۔ فیصل آباد کا بائیس سالہ نوجوان جو کہ روزے کی حالت میں اپنے گھر سے افطاری کا سامان لینے نکلا اس قاتل دھاتی ڈور نے اْس کا گلا کاٹ دیا نواجون سڑک پر تڑپ تڑپ کر جاں بحق ہو گیا۔ ایسے بے شمار دلخراش واقعات ہیں جن میں بچے ، نوجوان ، بوڑھے،خواتین گردن پر اسی قاتل ڈور کے وار سے مارے گئے۔انسانوں کا قتل عام تو ایک طرف اس نے ہوا میں اڑنے والے پرندوں کو بھی نا چھوڑا اْن کی گردنیں بھی کاٹیں ، پر زخمی کیے۔ماحول کو فضا کو لہولہان کیا۔
پتنگ بازی پنجاب کلچر کاحصہ ہے۔موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی پتنگ بازی کے شائقین متحرک ہو جاتے ہیں ۔ بسنت کا تہوار بھی موسم بہار میں ہی آتا ہے۔پنجاب کے شہر لاہور میں لاہوری بسنت کئی سالوں تک منائی جاتی رہی مگر جب سے دھاتی دوڑ کی وجہ سے لوگ جاں بحق ہوئے تو بسنت پر پابندی عائد کر دی گئی مگر پھر بھی پنجاب کے لوگ چوری چھپے اپنا یہ شوق پورا کرتے رہے۔
پتنگ بازی کی تاریخ لکھتے ہوئے بہت سارے محققین نے لکھا کہ پتنگ سازی کا آغاز ہزاروں سال قبل مسیح چین سے ہوا جب اسے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، جہاں جنرل بینسن نے انسانی شکل میں پتنگیں بنوائیں جنہیں رات کو اڑا کر دشمن فوجیوں کے کیمپوں کے اوپر لے جایا، چین سے جاپان میں پتنگ بدھ مت کے راہبوں کے ذریعے پہنچی جو اسے اپنی عبادات کے لیے اڑاتے تھے۔ جاپان میں پتنگ بیٹے کی پیدائش کی خوشی، اچھی فصل ہونے اور بدقسمتی کا دور ختم کے اظہار پر اڑانے کے علاوہ نئے سال کے آغاز پر بھی اڑائی جاتی تھی۔ امریکہ میں پتنگ کرسٹوفر کولمبس کے ذریعے پہنچی۔ برصغیر میں پتنگ اْڑانے کا رواج بادشاہوں اور امراء کی بیگمات کی تفریح میں ملتا ہے کہ یہ بیگمات گھروں میں تنہا رہتی تھیں اور ان کے پاس کوئی مصروفیت نہیں ہوتی تھی۔ تفریح اور اپنی سہیلیوں کو پیغام پہنچانے کے لیے یہ بیگمات مختلف رنگوں کی پتنگیں اڑاتی تھیں۔ میرے خیال کے مطابق آسمان پر اْڑنے والے جہاز یا پتنگ کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے مسلمان سائنسدان عباس بن فرناس کو فراموش کر دینا اس سائنسدان کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ میری ذاتی تحقیق کے مطابق چین سے بھی پہلے پتنگ بازی کی تاریخ کے ڈانڈے عباس ابن فرناس سے جا کر ملتے ہیں یہ دنیا کا پہلا انسان تھا جس نے اپنے جسم کے وزن کے مطابق دو پر تیار کیے جن کے فریم ریشم کے کپڑے کے ساتھ باندھ دیئے اور آسمان پر اْڑنا شروع کیا اور گھنٹوں آسمان پر اْڑتا رہا۔ عباس ابن فرناس کو دنیا کا پہلا آسمان پر اْڑنے والا انسان قرار دیا گیا۔
چناچہ دنیا بھر میں پتنگ بازی اصلاً تو تفریح کی غرض سے کی جاتی لیکن اس کے علاوہ اسے سائنسی تجربات، عسکری مقاصد، پیغام رسانی جیسے مفید کاموں کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔
پنجاب میں تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرتا ہوا پتنگ بازی کا یہ کھیل اْس دن سے قاتل اور خونحوار بنتا گیا جب پیچ لڑانے کے لیے لوگوں نے کیمیکل زدہ دھاتی ڈور بنانا شروع کی۔ اس پر ہر سال پابندیاں عائد کی گئی مگر ہماری ناکامیوں کی اصل وجہ بھی یہ ہی ہے کہ ہم سانحہ رونما ہو جانے کے بعد انسانوں کی نہایت قیمتی جانیں ضائع ہو جانے کے بعد چند روز کے لیے متحرک ہوتے ہیں اور پھر بعد میں وہ جرائم معمول کے مطابق ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔پھر کوئی حادثہ پیش آتا ہے جو ہمیں وقتی طور پر جھنجھوڑتا ہے اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہتا ہے۔ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم جرائم کو ،برائیوں کو اْن کی جڑ سے نا پکڑتے ہیں نہ ہی اْن کی بنیادی وجوہات ، اسباب ، محرکات کا خاتمہ کرتے ہیں۔کئی سالوں سے پنجاب پولیس پتنگ اْڑاتے چھوٹے بچوں کو پکڑ کر تو سزا دیتی ہے مگر دھاتی ڈور فروشوں کو قاتل ڈور بنانے والوں کو چھوڑ دیتی ہے یعنی وہ کنویں سے مرا ہوا کتا نہیں نکالتی بلکہ کنویں سے تعفن زدہ پانی نکال کر اپنا فرض ادا کر دیتی ہے۔ حکومت کی طرف سے پتنگ بازی پر کئی سالوں سے پابندی عائد ہے۔"انسدادِ پتنگ بازی ایکٹ" بھی موجود ہے۔ مگر پابندی کے باجود بھی پتنگیں بنائی جاتی ہیں فروحت کی جاتی ہیں کیمیکل زدہ دھاتی ڈور بنائی جاتی ہے فروحت کی جاتی ہے ،حادثات رونما ہوتے ہیں ،حادثات رپور ٹ بھی ہوتے ہیں۔ اور انسداد پتنگ بازی ایکٹ یہ سب دیکھ کر حیران و پریشان ہو جاتا ہے کہ آخر ہو کیا رہا ہے ؟دراصل یہاں پاکستان میں قوانین پر عمل درآمد کی اصل روح ہی مفقود ہے۔ پتنگ اڑانے کے شائقین سب سے زیادہ پنجاب میں موجود ہیں اور پنجاب میں ہی دھاتی دوڑ سے ہلاکتوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اور پنجاب پولیس چھوٹے بچوں کو اْن کے گھر کے چھتوں سے گرفتار کرنے کے لیے سر گرم عمل رہتی ہے۔مگر ڈور بنانے والی فیکڑیوں کو بند نہیں کرواتی ڈور کا کاروبار کرنے والوں کو اگر جو پکڑ کر پابند سلاسل کیا بھی جائے تو چند دن بعد جیل سے نکل کر پھر وہ ہی کاروبار کرنے لگتے ہیں۔خدارا مسئلے کی ، اموات کی جڑ کو بنیادی وجہ کو ختم کریں ،ماؤں پر رحم کریں ،اس قاتل ڈور مافیا کو پکڑیں ،کیونکہ نا ڈور اور پتنگیں بنائی جائیں گی نا فروخت ہوں گی نا ہی بچے کٹی پتنگ لوٹنے کے لیے چھتوں سے گر کر جاں بحق ہوں گے ، نا ہی پتنگ اْڑاتے بچوں کو بجلی کی تاروں سے کرنٹ لگے لگی۔نا ہی گلی محلوں میں لڑائی جھگڑے ہوں گے۔ موٹر سائیکل سوار اپنی حفاظت کے لیے ہیلمٹ کا استعمال ضرور کریں ،موٹر سائیکل پر حفاظتی باڑ بھی لگا لیں، مگر پیدل چلنے والے پھر بھی حا دثے کا شکار ہوتے رہیں گے اپنی چھتوں پر، پر سکون کھڑے لوگوں کی گردنیں بھی یہ قا تل ڈور کاٹ دیتی ہے۔ حکومتِ پنجاب ،پنجاب پولیس کے ساتھ ساتھ ہمارے عام عوام بھی ذمہ دار شہری اور انسانوں سے محبت کرنے والا کردار ادا کریں۔اپنی گلی محلوں کی دْکانوں پر پتنگ اور ڈور فروخت کرنے والوں پر نظر رکھیں اْن کو پولیس کے حوالے کریں۔اپنے اردگرد دیکھیں کہ کن کن جگہوں پر یہ دھاتی دوڑ بنائی جا رہی ہے لوگ خفیہ طور پر کن کن گھروں میں اس کو فروخت کر رہے ہیں ،تا کہ ماؤں کے جگر پاروں کی گردنیں سلامت رکھیں۔تا کہ ہمیں پھر سے کسی نوجوان کو خون میں لت پت سڑک پر تڑپتے نا دیکھنا پڑے۔اس لیے اس مافیا کو بے نقاب کر کے سزا دلوانے میں سب اپنا اپنا انفرادی کردار ادا کریں۔ تا کہ اموات کی بنیادی وجہ کو سرے سے ختم کر کے کنوئیں سے کتا نکالا جائے نا کہ ہر سال تعفن زدہ پانی نکال کر یہ سمجھا جائے کہ ہم نے تو اپنا فرض ادا کر دیا۔