جیل بڑی تربیت گاہ ہے۔ لینن سے جواہر لال نہرو، گرامچی سے نیلسن منڈیلا اور فیض سے حبیب جالب تک ، سب نے دورانِ اسیری بہت کچھ سیکھا اور شاہکار چیزیں لکھیں۔ یہی وہ جگہ ہے، جہاں باشعور لوگوں کو اپنی غلطیوں پر نظر ڈالنے کا بھی بھرپور موقع ملتا ہے۔
قید کاٹنے والے جانتے ہیں کہ قیدی اگر جیل کو نہیں کاٹے گا تو جیل اُس کو کاٹ دے گی۔ جیل میں قید کاٹنے والا خود کو سرگرم اور متحرک نہ رکھے تو وہ جلد ہی ذہنی طور پر مائوف ہو جاتا ہے۔ جیل کی اپنی دنیا اور اپنے ہی ضابطے ہیں۔ جن پر قیدی کو چلنا پڑتا ہے۔جیل قوانین توڑنے کی بھی سزائیں مقرر ہیں۔ جیل کے اندر ایک اور جیل بھی ہوتی ہے جسے ’’ڈیتھ سیل‘‘ کہتے ہیں۔ ڈیتھ سیل میں ایسے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے جنہیں سیشن کورٹ سے سزائے موت ہو جاتی ہے۔ ڈیتھ سیل میں عموماً مقدمہ قتل میں سزا پانے والے قیدی ہوتے ہیں۔ یہاں منتقل کئے جانے والے قیدی اُس وقت تک یہاں مقیم رہتے ہیں جب تک انہیں سزائے موت کے لیے پھانسی گھاٹ تک نہیں لے جایا جاتا، یا پھر اپیل کے بعد اُن کی ہائی کورٹ کے حکم سے رہائی نہیں ہو جاتی۔
میں نے بطور صحافی متعدد بار جیلوں کی ’’بیٹ ‘‘ کرنے والے رپورٹرز کے ہمراہ جیلوں کا دورہ کیا۔ خصوصی طور پر جیل کے ’’ڈیتھ سیل‘‘ میں بھی جانے کا موقع ملا۔ جہاں مجھے عبرت اور خوف کے کئی مناظر دیکھنے کو ملے۔ کیا دیکھا چھوٹی سی بیرک ہے۔ جس میں تین چار لوگ بمشکل اقامت رکھ سکتے ہیں۔ سامنے لوہے کا بڑا جنگلا ہے۔ ٹوائلٹ بھی بیرک کے اندر ہی ہے جس کی چادروں سے پارٹیشن کی گئی ہے۔ یہ بھی دیکھا یہاں مقیم قیدی باہر کا منظر نہیں دیکھ سکتے کیونکہ بیرک کے جنگلے کے آگے ایک دیوہیکل دیوار تعمیر شدہ ہے۔ جو دور تک چلے گئی ہے۔ جس کے اُس پار نہیں دیکھا جا سکتا۔ کیا ہو رہا ہے، کون سی سرگرمیاں جاری ہیں؟ ڈیتھ سیل میں ہونا ایک قسم کی قیدِ تنہائی ہے۔ ڈیتھ سیل میں مقیم قیدی کو 24گھنٹوں میں صرف ایک گھنٹہ صبح اور ایک گھنٹہ شام چہل قدمی کے لیے سیل سے نکالا جاتا ہے۔ قیدی ڈیتھ سیل کے محدود ایریا میں ہی چہل قدمی کر سکتا ہے۔ اس دوران جیل کے دوسرے قیدیوں اور حوالاتیوں سے اُسے ملاقات کی قطعی اجازت نہیں ہوتی۔ نہ وہ جیل کی دیگر سرگرمیوں کو ہوتے دیکھ سکتا ہے۔ کیونکہ اُس کے آگے ایک دیوہیکل دیوار حائل کر دی گئی ہے۔ ڈیتھ سیل کے صبح و شام بہت ہی کربناک ہوتے ہیں۔ عام قیدیو ں کی طرح ڈیتھ سیل کا قیدی دوستوں یا فیملی ممبران سے معمول کی ملاقات نہیں کر سکتا۔ بس اس انتظار میں رہتا ہے کہ ہائی کورٹ میں اُس کی ’’اپیل‘‘ کا فیصلہ ہوا اور وہ رہا ہو کر’’ جیل ‘‘ سے باہر آ جائے۔ شومئی قسمت ہائی کورٹس میں اپیلوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ چار، پانچ سال یونہی گزر جاتے ہیں۔ اپیل کنندہ کی تاریخ نہیں نکلتی اور زیر سماعت نہیں آتی۔ اُسے رہا بھی کیا جانا ہو تو تب بھی سماعت کے انتظار میں چار، پانچ سال ڈیتھ سیل میں ہی گزر جاتے ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ امر ہے۔ جس کا ہر حال میں سدباب ہونا چاہیے۔ سزائے موت کا کوئی بھی قیدی ’’اپیل‘‘ کرتا ہے تو ہائی کورٹ کو اُس کی اپیل کا فیصلہ دو تین ماہ میں ہی کر دینا چاہیے۔ سالوں کا انتظار مناسب نہیں، زیادتی ہے۔
جیل میں موجود کورٹ بیٹ رپورٹرز کے ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ بااثر اور مالی حیثیت کے حامل قیدی جیل میں ہر طرح کی موج کرتے ہیں۔ انہیں گھر کے دیسی کھانوں سے لے کر موبائل تک کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ مزید بھی ہر فرمائش پوری کر دی جاتی ہے۔ جیل کا عملہ پیسوں کے عوض کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ جیل میں قید بااثر افراد بہتر سہولتیں فراہم کرنے کے عوض جیل افسران کو بڑی بڑی رقمیں دیتے ہیں۔ مال و زر سے نہال کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے چاروں صوبوں میں جیل کے الگ الگ محکمہ جات ہیںجن کے معاملات ہر صوبے کا ہوم ڈیپارٹمنٹ چلاتا ہے۔ جیل خانہ جات کے تمام امور کی دیکھ بھال صوبائی وزارتِ داخلہ کے ذمے ہوتی ہے۔ صوبائی سیکرٹری ہوم کا اس میں کلیدی کردار ہوتا ہے۔
آج کل یہ شکایات عام ہیں کہ جیل کا عملہ رشوت کے عوض قیدیوں کو منشیات اور دیگر غیر ممنوعہ اشیاء فراہم کرتا ہے۔ جو ایک سنگین جرم ہے۔ کئی بار خفیہ اطلاعات اور انٹیلی جنس رپورٹ پر جیل میں چھاپوں کے دوران قیدیوں سے موبائل فون اور بڑی مقدار میں منشیات پکڑی گئیں۔ غیر قانونی کاموں میں ملوث جیل ملازمین کو سزائیں بھی ہوتی ہیں۔ نوکری سے برخاست کر دیا جاتا ہے لیکن اس مذموم دھندے پر آج تک قابو نہیں پایا جا سکا۔
ملک کی جیلوں میں قید تنہائی کا تو کوئی رواج اور تصور نہیں۔ تاہم جب کوئی سیاسی شخصیت پابندِ سلاسل ہوتی ہے تو ذہنی ٹارچر کے لیے اُسے قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ قیدِ تنہائی کا مطلب کسی بھی قیدی کو کم سے کم انسانی رابطوں تک محدود اور دور رکھنا ہوتا ہے۔ باہر کے ذرائع تک اُس کی رسائی ممکن نہیں رکھی جاتی۔ اُسے جیل کے جس سیل یا کمرے میں رکھا جاتا ہے اُس کا سائز بھی اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ بمشکل اپنے پائوں پھیلا سکے۔ رات ہو تو سیل میں اتنی روشنی کر دی جاتی ہے کہ قیدی سو نہ سکے۔ دن ہو تو تاریکی کر دی جاتی ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا دن ہے کہ رات؟
قید تنہائی کیا ہے؟ دی مارشل پروجیکٹ 2022ء کے ایک مضمون میں میتھو ایزانولکھتے ہیں ’’تنہا قیدی عام طور پر اپنے چھوٹے سیلوں میں 23گھنٹے تک محدود رہتا ہے‘‘۔ قید تنہائی کے خلاف ایک امریکی عدالت نے حکم دیا ’’تنہائی میں قیدی اس سیل سے باہر کے وقت کے بھی حق دار ہیں۔‘‘امریکی سیل میں فرنیچر عام طور پر کم سے کم ہوتا ہے۔ تاہم پاکستان میں تو قیدی فرش پر سوتے ہیں۔ صرف اے یا بی کلاس والوں کو چارپائی اور کرسی مہیا کی جاتی ہے۔ تاہم اے کلاس والوں کو اخبار اور ٹی وی بھی مل جاتا ہے۔
جیلوں میں کسی بھی قیدی سے ملاقات کے لیے جانے والے رشتہ دارو ں کو بڑی ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ثریا بی بی (فرضی نام) کچھ عرصہ قبل اپنی بیٹی کو اس کے والد سے ملانے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل گئی۔ پابند سلاسل والد کی حالت زار نے بیٹی کو حد درجہ پریشان کیا۔ وہ سخت ذہنی کرب اور اذیت میں مبتلا ہوئی۔ ثریا بی بی جب بیٹی سمیت گھر واپس آئی تو بیٹی عجیب و غریب حرکات کر رہی تھی۔ کبھی رویہ جارحانہ ہو جاتا اور کبھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوفزدہ ہو جاتی۔ وہ نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہو چکی تھی۔ والدہ نے ذہنی امراض کے ایک ڈاکٹر سے اُس کا علاج کرایا لیکن اُسے نارمل ہونے میں کئی سال لگ گئے۔
پاکستان میں تین طرح کی جیلیں ہیں۔ ایک جیل مردو ں کے لیے مخصوص ہے۔ دوسری جیل عورتوں کے لیے جبکہ تیسری قسم کی جیل بورسٹل جیل کہلاتی ہے جس میں جرائم کرنے والے ایسے بچوں کو قید کیا جاتا ہے جن کی عمریں 18سال سے کم ہوتی ہیں۔ پنجاب میں ایسی بورسٹل جیل جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور میں ہے۔ جہاں جیب تراشی، نقب زنی، چوری، ڈکیتی اور قتل جیسیے سنگین جرائم میں نوعمر بچے ایف آئی آر کے اندراج اور گرفتاری کے بعد مجسٹریٹ کے حکم پر جیل منتقل کئے جاتے ہیں۔ بورسٹل جیل میں جرائم پیشہ بچوں کی تعلیم و تربیت کا پورا بندوبست ہوتا ہے۔ یہاں قید بچوں کو نصابی اور دینی تعلیم دی جاتی ہے۔جس کے لیے جیل کو ماہر اساتذہ کی خدمات حاصل ہیں۔ خصوصی لیکچر کے ذریعے جرم کے راستے سے ہٹانے اور انہیں قانون کی راہ پر واپس آنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
تاہم ایسا انتظام و اہتمام ملک کی دیگر جیلوں میں بھی ہونا چاہیے، خصوصی طور پر جہاں خواتین قید ہیں۔ وہاں بھی تربیت کا مناسب بندوبست ضروری ہے۔ جہاں مرد سزا کاٹ رہے ہیں۔ وہاں بھی ایسے علمائے کرام کو جانا چاہیے جو پی ایچ ڈی ہوں۔ جن کی زبان و کلام میں بھرپور تاثر ہو۔ ہو سکتا ہے جیل میں اسیر افراد کو راہِ راست پر لانے کے لیے وہ اپنا کوئی کردار ادا کر سکیں۔ قیدی جیل سے باہر آئیں تو اچھے اور قانون پسند شہری ثابت ہوں۔ کبھی قانون توڑنے کا نہ سوچیں، ہمیں بھی جرم سے نفرت کرنی چاہیے، جرم کرنے والوں سے نہیں۔