آئندہ بجٹ میاں نواز شریف کے لئے کڑا امتحان ہو گا
توانائی کے مسئلہ سے نبٹنے کے لئے بہتر پالیسی اپنا کر مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے
ہائیڈل پاور کے منصوبوں کو فروغ دے کر توانائی کے مسائل سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے
اوورسیز پاکستانیوں کی .... میں بنکوں کی کارکردگی کو فعال بنا کر زر مبادلہ کے مسائل بآسانی حل ہو سکتے ہیں
پیپلز پارٹی کے موجودہ دور کے بجٹ لوٹ مار کا بدترین نمونہ تھے
پاکستانی حکمرانوں، سیاستدانوں، عوام اور فوج سب کو ملک و ملت کی بہتری کے لئے ترقی کے ایک نقطے پر متفق ہو جانا چاہئے۔ ملک کے حالات بدلنے کا سوچیں، کشکول زدہ حکمرانوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ بے شک یہ عوام پر کروفر سے حکومت کرتے ہیں لیکن سپرپاورز کے سفیر کے سامنے ہاتھ باندھ کر ادب بجا لاتے ہیں۔ اگر ہمیں غیرت مند قوم بننا ہے تو کشکول توڑنا ہو گا۔ پاکستان میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق انڈسٹری سے جو ورکرز ویلفئر فنڈ کاٹا جاتا ہے۔ بجٹ 2011-12ءمیں 25ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا مگر صرف 15ارب روپے کے فنڈز حاصل ہوئے۔ چنانچہ بجٹ 2012-13ءمیں ورکرز ویلفئر فنڈز کا تخمینہ 18ارب روپے لگایا گیا۔ مزدور اور ہنرمند بے روزگار کہہ رہے ہیں۔ اس کے برعکس مہنگائی کا تناسب گزشتہ پانچ سالوں میں دو سے تین گنا بڑھ گیا۔
قدرت کاملا نے بڑی فیاضی سے پیارے ملک کو وسائل مہیا کئے ہیں۔ ہمارے اردگرد وسائل بکھرے پڑے ہیں۔ بہتے پانیوں کی روانی پر ایک لاکھ میگاواٹ سے زائد سستی ترین بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ تھوڑی سی کوشش کی جائے تو دو آبوں سے گھری وادیوں میں ریکارڈ غلہ پیدا کر سکتے ہیں۔ صحرا¶ں پہاڑوں اور کہساروں میں تیل گیس اور معدنیات کے ذخائر بھرے پڑے ہیں۔ برف پوش پہاڑوں میں گھری خوبصورت وادیاں دنیابھر میں جنت نظیر ہیں۔ ان وسائل کو استعمال کیا جائے تو ہمارا ملک چند سالوں میں دنیا کی بڑی معاشی قوت بن سکتا ہے۔ اس کیلئے صرف نیک نیتی کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس دیکھتے ہیں ان .... زدہ حکمرانوں نے ہمیں کیا دیا ہے؟
امریکی امداد کیری لوگر بل کا بہت چرچا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے بڑی نخوت سے کہا تھا ڈالر لیتے ہو تو ڈرون حملے بھی برداشت کرنا پڑیں گے۔ بل کی مد میں 2011-12ءکے بجٹ میں تقریباً 20ارب روپے اور 2012-13ءکے بجٹ میں 8ارب 20کروڑ روپے ملے۔ اس معمولی رقم کو لیتے ہوئے ہمارے حکمرانوں کو شرم آنی چاہئے تھی جو نہیں آئی۔
آئیے! ایک نظر دیکھتے ہیں۔ ہمارے بجٹ کا حجم کتنا ہے۔ حکمران اسے کس طرح استعمال کر رہے ہیں۔ اور اگر اسے صحیح نہج پر استعمال کیا جائے تو پاکستان محض چند سالوں میں ایشیئن ٹائیگر بن سکتا ہے۔
2012-13ءکا کل بجٹ تقریباً 3203ارب روپے ظاہر کیا گیا تھا۔ جس میں 27کھرب 19ارب روپے کی آمدنی بتا کر تقریباً 484ارب روپے کا خسارہ دکھایا گیا۔ جسے بنکوں سے قرضہ لے کر ادا کرنا مقصود تھا۔ خسارے کے اس بجٹ میں پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے تیل اور گیس کے وسیع ذخائر رائلٹی صرف 58ارب روپے ظاہر کی گئی۔ صوبوں کو دی جانے والی امداد تو صوبائی بجٹ میں شامل ہو گئی جو 255ارب روپے کی تھیں۔ جبکہ وفاقی حکومت نے 208ارب روپے اپنی صوابدید میں رکھے۔ اور اسے من چاہے طریقہ سے خرچ کیا۔ اس طرح سوشل پروٹیکشن میں 2011-12ءکے بجٹ میں تقریباً ایک ارب روپے کی رقم رکھی لیکن 32ارب روپے سے زائد خرچ کئے۔ 2012-13ءکے بجٹ میں ایک ارب 34کروڑ رکھے گئے لیکن کتنے خرچ ہوئے ابھی صیغہ راز میں ہے؟ جنرل پبلک سروس کیلئے متفرق طور پر اخراجات کیلئے 2011-12ءمیں 178ارب روپے رکھے گئے تھے لیکن 506ارب روپے خرچ کئے گئے۔ 2012-13ءمیں اس مد میں 230ارب روپے مختص کئے گئے تھے۔ زراعت، خوراک، اری گیشن، جنگلات اور فشریز وغیرہ کیلئے بھی 2011-12ءمیں 12ارب روپے رکھے گئے مگر 43ارب روپے کے اخراجات کئے گئے۔ یہ رقم کس طرح ہڑپ ہوئی کوئی پتہ نہیں۔ 2012-13ءمیں اس مد میں پونے 16ارب روپے رکھے گئے۔ Testiary Educationسے متعلق معاملات اور سروسز کیلئے 2011-12ءمیں 29ارب روپے رکھے گئے جبکہ 34ارب روپے خرچ کئے گئے۔ 2012-13ءمیں ساڑھے 35ارب روپے مختص کئے گئے۔ اپنی چہیتی ایڈمنسٹریشن کی سوشل پروٹیکشن کیلئے 2011-12ءمیں 828ملین روپے رکھے گئے تھے مگر 29ارب 796ملین روپے خرچ کئے گئے۔ 2012-13ءکے بجٹ میں 982ملین روپے رکھے گئے تھے۔ مگر کتنے خرچ ہوئے کوئی پتہ نہیں؟
سب سڈیز کے نام پر خزانے کو اندھا دھند استعمال کیا گیا۔ Inter Disco Tariff Differentialکے نام پر 2011-12ءمیں 50ارب روپے کی سب سڈی رکھی گئی مگر اس مد میں 412ارب روپے خرچ کئے گئے۔ 2012-13ءمیں اس مد میں 120ارب روپے رکھے گئے۔ جبکہ Pickup Differentialکے نام پر بھی سب سڈیز کیلئے 2011-12ءمیں 29ارب روپے رکھے گئے مگر 45ارب روپے خرچ کئے گئے۔ 2012-13ءمیں اس مد میں 50ارب روپے رکھے گئے۔
اپنی چہیتی KESCجو ایک پرائیویٹ کمپنی ہے کیلئے 2011-12ءمیں ساڑھے 24ارب روپے کی سب سڈی رکھی گئی مگر 45ارب روپے سے نوازا گیا۔ 2012-13ءکے بجٹ میں 50ارب روپے کی سب سڈی دی گئی اس پر بھی .... پورا نہ ہوا تو حکومت پاکستان کی طرف سے KESCکو سوا تین ارب روپے بطور Donationدیئے گئے۔ پاسکو کیلئے 2011-12ءمیں 4ارب روپے کی سب سڈی رکھی گئی۔ مگر ساڑھے 18ارب روپے سے زائد دیا گیا۔ اسی طرح گزشتہ سال یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن کو 6ارب روپے کی سب سڈی سے نوازا گیا۔ اس میں 4ارب روپے صرف چینی کی مد میں تھے۔ گرانٹس کی مد میں صوبوں کو 55ارب روپے سے زائد رقم دی گئی۔ اس میں 58%آبادی والے صوبہ پنجاب کو صرف 5ارب روپے دیئے گئے۔ Contigent Liabilitiesکیلئے بجٹ میں 150ارب روپے مخصوص کئے گئے۔ متفرق گرانٹس کیلئے 35ارب روپے اور چینی ANPکو ریلوے کی مد میں 31ارب روپے کی گرانٹ دی گئی۔ ان شاہ خرچیوں کے علاوہ PDSPپروگرام کے تحت بھی ریلوے کو تقریباً 23ارب روپے عنایت کئے گئے۔ جبکہ اسی پروگرام کے تحت پانی کے اہم ایشو کیلئے صرف 47ارب روپے مختص کئے گئے۔ ملے یا نہیں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ Lump provision of Relief etc.کیلئے بھی 2ارب 40کروڑ روپے رکھے گئے تھے۔ آزاد کشمیر میں اپنی حکومت کو سہارا دینے کیلئے 11ارب روپے اور گلگت بلتستان میں اپنی حکومت قائم کرنے کیلئے ساڑھے 16ارب روپے کی رقم مخصوص کی گئی۔
PDSPپروگرام کے تحت پیپلز ورکس پروگرام iکے تحت 5ارب اور پیپلز ورکس پروگرام iiکیلئے 22ارب روپے رکھے گئے۔ اسی طرح TCPکو یوریا کھاد کی خریداری کیلئے 2011-12ءمیں 12ارب روپے مختص کئے گئے مگر 45ارب روپے فراہم کئے گئے۔ 2012-13ءمیں بھی اس کیلئے 26ارب روپے مخصوص کئے گئے۔ بینظیر ٹریکٹر پروگرام کیلئے 2ارب روپے رکھے گئے۔ جبکہ بینظیر سپورٹس فنڈ کیلئے 2011-12ءمیں 50ارب روپے اور 2012-13ءمیں 70ارب روپے مخصوص کئے گئے۔ اس کے علاوہ شہریوں کی املاک کی Damgesاور Povertyکیلئے ترقیوں اور Lumpگرانٹس کی مد میں بھی 35ارب روپے کی خطیر رقم رکھی گئی۔
ان شاہ خرچیوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو مفلوج کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ اگر ان فراہم کردہ بجٹ کو توانائی کے سیکٹر میں لگایا جاتا تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے بھی نجات ملتی۔ گیس کی بندش بھی نہ ہوتی، فیکٹریاں بند نہ ہوتیں۔ لوگ بے روزگار نہ ہوتے۔ ہمیں دوسروں کے در کا بھکاری نہ بننا پڑتا۔ یہ انہی بداعمالیوں کا ردعمل تھا کہ عوام نے انہیں بری طرح رد کر دیا۔
جہاں تک پاکستان کے معاشی استحکام کا تعلق ہے اس کیلئے توانائی کے بحران پر جتنی جلدی ممکن ہو قابو پانا بہت ضروری ہے۔ میں ایک کالم میں لکھ چکا ہوں۔ 1983ءکے بعد جب کالا باغ ڈیم کو خواہ مخواہ متنازعہ بنایا گیا تھا۔ اگر پاکستانی حکومت اس عرصہ میں IPPsکے تیل کے منصوبوں کے بجائے دیگر ہائیڈل منصوبوں کی طرف توجہ دیتی تو ہمیں ایک روپے یونٹ والی سستی ترین بجلی حاصل ہوتی جو تیل کے بجلی گھروں سے 18روپے فی یونٹ میں حاصل ہو رہی ہے۔ اپنی کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا اور جب دیگر صوبوں کے لوگ ہائیڈل منصوبوں کی افادیت دیکھتے تو کالا باغ ڈیم کی مخالفت خود ہی ختم ہو جاتی۔ لیکن سازشی عناصر نے ہائیڈل منصوبے شروع ہی نہ ہونے دیئے۔ اب بہت کڑا وقت ہے اس سال کے آخر تک پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 25ہزار میگاواٹ سے زائد ہو جائے گی لیکن اوسطاً مہنگی بجلی ہمارے لئے کسی بوجھ سے کم نہ ہو گی۔ ہمیں کسی ایسے منصوبہ کی ضرورت ہے جو جلد از جلد رزلت دے سکے۔ اس کیلئے صرف اور صرف کالا باغ ڈیم ہی واحد پراجیکٹ ہے۔ جس کے ثمرات اس کی تعمیر شروع ہونے سے محض ایک سال بعد ملنا شروع ہو جائیں گے۔ اگر میاں شہباز شریف کے جنون سے کام کیا جائے تو کالا باغ ڈیم کی جھیل ایک سال سے کم وقت میں بن سکتی ہے۔ اس طرح ہمیں 6.1ملین ایکڑ فٹ کا .... حاصل ہو جائے گا۔ چنانچہ منگلا اور تربیلا ڈیم جو دراصل زرعی مقاصد کیلئے بنائے گئے ہیں۔ ان کا بوجھ کالا باغ ڈیم کی مکمل تکمیل تک کالا باغ ڈیم کی جھیل پر ڈالا جا سکتا ہے۔ جس سے نہ صرف تربیلا ڈیم کی سلٹ صفائی کا منصوبہ بھی بن سکتا ہے بلکہ ایک ہزار سے پندرہ سو میگاواٹ کا Netاضافہ ہو گا۔ اس طرح ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی بچت ہو گی بلکہ 6.1ملین ایکڑ فٹ کے Resconoirکی وجہ سے سیلاب کی بھی روک تھام ہو گی۔
حکومت بھاشا ڈیم کو تعمیر کرنے کے پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ اس میں دو بڑی قباحتیں ہیں جیالوجیکل سروے آف پاکستان جو ایک مستند ادارہ ہے کے مطابق بھاشا ڈیم 9ہیکڑ سکیل کے زلزلے کی پٹی پر واقع ہے۔ 908فٹ اونچا ڈیم زلزلہ کے کسی جھٹکے سے پھٹا تو پاکستان میں قیامت کا منظر نظر آئے گا۔ چاروں صوبوں کی بنائی گئی ماہرین کی 8رکنی ٹیکنیکل کمیٹی نے بھاشا ڈیم کو موجودہ پوزیشن میں خطرے کی گھنٹی قرار دے چکی ہے۔ بہرحال پھر بھی دلجمعی سے کام کیا تو بھاشا ڈیم کی تعمیر مکمل ہونے میں 12سال درکار ہیں۔ اس طرح اس کے فوری فوائد نہیں آ سکتے بلکہ اسے مستقبل کا ڈیم کہا جائے تو بہتر ہو گا۔ اسی طرح اکھوڑی ڈیم جو 6ملین ایکڑ فٹ کا ڈیم ہے۔ ابھی اس کا فزیبلٹی ڈیزائن بھی مکمل نہیں ہوا۔ ہمارے محکموں کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو اس کے ڈیزائن کو مکمل ہونے میں کئی سال لگیں گے۔ لہٰذا صرف کالا باغ ڈیم ہی واحد ڈیم ہے جو بجلی پانی دونوں لحاظ سے انتہائی مفید ہو گا۔ سیلاب کی روک تھام ہو گی۔ اگر ان ڈیم کو .... بنیادوں پر بنایا جائے تو صرف 4سال میں مکمل ہو سکتا ہے۔ جس سے توانائی کا بحران مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ اس طرح اکھوڑی کا ڈیزائن مکمل ہونے کے بعد اس کی تعمیر بھی شروع ہو سکتی ہے۔
ان مقاصد کیلئے حکومت کو فنڈز کی ضرورت ہو گی۔ جو اس کے پاس نہ ہیں حالانکہ پچھلے بجٹوں کے تقابلی جائزے سے نظر آتا ہے کہ ہمارے پاس وافر وسائل ہیں۔ اگر ہمارے حکمران ان وسائل کو اپنی شاہ خرچیوں کے بجائے ملکی تعمیر کیلئے استعمال کریں۔ تو ہم اپنے وسائل سے تمام میگا پراجیکٹس مکمل کر سکتے ہیں۔ پاکستانی قوم وطن سے بے پناہ محبت رکھتی ہے مگر ان کے اس جذبہ کو منفی طریقہ سے استعمال نہ کریں۔ ان سے چندہ نہ مانگیں بلکہ انہیں ملکی تعمیر کے پروگرام میں حصہ دار بنائیں۔ اس مقصد کیلئے Pakistan Dams Construction Consostium Ltd.بنا کر 100%سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔ اس کنسوریشم کے ذریعے کالا باغ ڈیم، بونجی کوہالہ، .... داسو، پٹن اور تھاکوٹ کے ہائیڈرو پراجیکٹس بنائے جا سکتے ہیں۔ اکھوڑی کا ڈیزائن مکمل ہونے پر اس کی تعمیر بھی شروع کی جا سکتی ہے۔ ان مقاصد کیلئے ہمیں کسی غیرملکی امداد یا ماہرین کی قطعاً ضرورت نہیں۔
ہمارے پاس سونے کی کانیں ہیں۔ ہر قسم کی معدنیات ہیں۔ ان سے وطن کو فائدہ پہنچانے کے بجائے لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔ اسے ختم کریں۔ خصوصاً 5سال لوٹ مار کرنے والوں کا سختی سے احتساب کریں۔ ابھی چند دن پہلے PIAکا ایک طیارہ سعودیہ میں 25دن کھڑا رہا۔ صرف ایک جہاز کی وجہ سے کروڑوں کا نقصان ہوا۔ لیکن PIAکے افسران اور انجینئرز نے خوب عمرے کئے۔ PIAمیں مفت کے ٹکٹ بند کئے جائیں۔ الیکٹرک سپلائی کمپنیوں میں مفت کی بجلی ختم کی جائے۔ یہ وسائل کی چوری ہے۔ وسائل کی لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے کام لیں۔ صرف عوام کی بہتری کا خیال کریں۔ ملک و قوم کی بالادستی کیلئے کام کریں۔ ہمیشہ کی حکمرانی کا تاج خدا خود پہنائے گا۔