لندن (تحقیقاتی رپورٹ- خالد ایچ لودھی) افغانستان میں نیٹو افواج کے طویل عرصے تک قیام کے باوجود افغانستان میں طالبان کی موجودگی برقرار ہے۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں امریکہ اور برطانیہ کے فوجیوں نے بظاہر تو کنٹرول قائم کر رکھا ہے مگر افغانستان کے دیگر علاقوں میں بدستور عملی طور پر طالبان گروپس بھی اپنا کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہیں اور آہستہ آہستہ ایک بار پھر دیگر علاقوں میں طالبان اپنی پوزیشن مضبوط بنا رہے ہیں۔ مغربی عسکری ذرائع اس امر کی تصدیق کر رہے ہیں کہ کابل کے گردونواح میں بھی طالبان کی عسکری پوزیشن خاصی مضبوط ہے۔ امریکی اور برطانوی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں جو بڑا مسئلہ درپیش ہوگا اس میں مقامی افغان شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ہے کیونکہ مقامی افغان شہری جو کہ امریکہ اور اس کے اتحادی فوجیوں کے ساتھ مل کر حکومتی مشینری کا حصہ اور بیورو کریسی میں کلیدی عہدوں پر فائز تھے ان کو اب طالبان کے عسکری گروپس دھمکیاں دے رہے ہیں اب تک نیٹو افواج کے ساتھ بطور ترجمان کام کرنے والے 21 افغان شہریوں کو قتل کیا جا چکا ہے اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو بھی مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ افغان بیورو کریسی پر مشتمل افسران کی بھاری تعداد امریکہ، برطانیہ، یورپ اور بھارت میں قیام کے لئے سرگرم ہوگئی ہے، بھارت جو کہ افغانستان میں مقامی پولیس فورس اور سول سروس کے ملازمین کو اپنے مشیروں کے ذریعے تربیت فراہم کر رہا تھا اپنا تربیتی نیٹ ورک کابل میں بند کر چکا ہے کیونکہ زیادہ تر افغان ملازمین افغانستان سے ہجرت کر چکے ہیں۔ دوسری جانب برطانوی حکومت افغان شہریوں کو برطانیہ میں رہنے کے لئے پانچ سال تک کا ویزا جاری کرنے کے منصوبے پر عمل کر رہی ہے۔ یہ برطانوی ویزے ان افسران اور ملازمین کو جاری کئے جا رہے ہیں جن کو طالبان کے گروپس سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ وہ افغان شہریوں کی ہر ممکن مدد کریں گے جنہوں نے برطانوی افواج کے ساتھ افغانستان میں تعاون کیا اور ان کے ساتھ مل کر شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں عملی کردار ادا کیا ہم ان شہریوں کو طالبان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے اور ان کے خاندانوں کو بھرپور تحفظ فراہم کریں گے۔ برطانوی ممبران پارلیمنٹ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اس امر کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان میں نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں غیر یقینی کی جو صورت حال پیدا ہو گی اور خانہ جنگی جیسے حالات پیدا ہوئے تو اس کی تمام تر ذمہ داری امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں پر عائد ہوگی کیونکہ امریکی اور برطانوی دونوں ممالک کے پالیسی ساز اداروں نے افغانستان کے اصل مسائل اور طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں سفارتی سطح پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور افغانستان کے حساس مسئلے کو طاقت کے ذریعے حل کرنے میں طویل عرصہ تک بے پناہ بجٹ ضائع کیا جس سے اب خطے میں آنے والے برسوں میں مزید گھمبیر صورت حال پیدا ہو گئی اور دہشت گردی ایک بار پھر دنیا کے دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔